لوک سبھا میں کانگریس رہنما ادھیر رنجن چودھری نے بل پر بحث کی شروعات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بل کی اصل روح کی حمایت کرتے ہیں،لیکن وہ اسے آرڈنینس کے راستے لانے کی مخالفت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیچیدہ معاملہ ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف حکومت اور یوجی سی سپریم کورٹ گئے تھے،لیکن سپریم کورٹ نے بھی محکمے کو اکائی ماننے کے حق میں فیصلہ دیاتھا۔اس سلسلے میں نظر ثانی پٹیشن بھی خارج ہوچکی ہے۔اس لیے ،حکومت کو جلد بازی میں بل پاس کرانے کی جگہ اسے پارلیمنٹ کی مستحکم کمیٹی کے پاس بھیجنا چاہیئے جہاں اس کا پورا جائزہ لیا جائےگا۔
چودھری نے الزام عائد کیا کہ حکومت ووٹ بینک کے لیے الیکشن کے اعلان سے ٹھیک پہلے 200پوائنٹ والے روسٹر سسٹم کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے آرڈنینس لے کر آئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے دفترمیں جتنے بل لائے گئے ہیں ان میں 40فیصد آرڈنینس کے راستے لائے گئے ہیں،یعنی بل سے پہلے آرڈنینس لایا گیاہے تاکہ ایوان پر طے مدت میں جلد بازی میں اسے پاس کرنے کا دباؤ ہو۔
انہوں نے ملک میں اعلی تعلیم کی موجودہ حالت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے 200سب سے بہترین یونیورسٹیوں میں ایک بھی بھارتی نہیں ہے۔تعلیم حاصل کر کے پاس ہونے والے طلبہ میں عملی صلاحیتوں اور علم کا فقدان ہوتا ہے اور وہ روزگار کے لائق نہیں ہوتے۔
کانگریس رہنما نے کہا کہ حال میں ریگولیٹری فریم اعلی تعلیم کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔اعلی تعلیمی اداروں میں ٹیچروں کے 35فیصد عہدے خالی ہیں۔صرف 10فیصد ادارے ہی تصدیق شدہ ہیں اور تصدیق شدہ اداروں میں بھی صرف 10فیصد کو ہی ’اے پلس‘ رینکنگ حاصل ہے۔
دروڑ منیتر کشگم کے اے راجہ نے کہا کہ ریزرویشن کے انتظام سے کمزور طبقے کے لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین ساز اسمبلی میں ریزرویشن پر بحث 1951میں ہوئی تھی لیکن ان کے رہنما ایم کرونا نیدھی نے اس سے پہلے ہی ریزرویشن کی بات کی تھی۔