پاٹلی پتر لوک سبھا سیٹ پٹنہ ضلع میں ہے۔ سنہ 2008 تک پٹنہ میں صرف ایک لوک سبھا سیٹ ہوا کرتی تھی لیکن حد بندی کے بعد یہاں دو سیٹیں ہو گئیں۔ ایک پاٹلی پتر ( شہر کے قدیم نام پر مبنی) اور دوسری سیٹ پٹنہ صاحب۔
پاٹلی پتر میں لالو یادو کا وقار داؤ پر بہار کا قدیم دارالحکومت پاٹلی پتر اپنے عروج کے وقت سے ہی سیاسی اٹھاپٹک کا مرکز رہا ہے ۔ پٹنہ کے پرانے نام سے مشہور پاٹلی پتر میں کئی راج گھرانوں کے مابین سیاسی لڑائیاں ہوئیں اورپاٹلی پتر کئی سیاسی تبدیلیوں کا گواہ بنا۔
لوک سبھا انتخاب 2014 میں پاٹلی پتر لوک سبھا سیٹ پر جس سیاسی گھمسان کی وجہ سے پورے ملک کی نظریں اس جانب مرکوز تھیں اس بار بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ ساکھ اور پگڑی کی لڑائی میں پھر پاٹلی پتر بہار کی سیاست کا کہیں مرکز نہ بن جائے ۔
سنہ 2009 میں پاٹلی پتر لوک سبھا سیٹ پر پہلی بار انتخاب ہوا۔ پاٹلی پتر کے پہلے انتخابی اکھاڑے میں ایک جانب جہاں آرجے ڈی کے صدر لالو پرساد یادو تھے وہیں دوسری جانب جنتادل یونائٹیڈ ( جے ڈی یو ) کے رہنما رنجن پرساد یادو۔ پاٹلی پتر لوک سبھا سیٹ پر ہوئے پہلے مقابلے میں ہی بڑا الٹ پھیر ہوگیا اور جے ڈی یو کے رنجن پرساد یادو نے لالو پرساد کو شکست دے کر سب کو حیران کر دیا۔ رنجن پرساد یادو نے لالو پرساد یادو کو تقریباً 23 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی اور لالو پرساد یادو کے قد پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑاکر دیا ۔
سنہ 2014 کے عام انتخاب میں جس طرح سے پاٹلی پتر سیٹ پر اپنوں کے مابین سیاسی گھمسان دیکھنے کو ملا اس بار بھی وہی جوڑی سیاسی اکھاڑے میں آمنے سامنے ہے ۔
بہار کی ہاٹ سیٹوں میں سے ایک پاٹلی پتر پر سبھی کی نگاہیں ہیں۔ یہاں آرجے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو کی ساکھ داﺅ پر ہے ۔ یہاں سے ان کی بیٹی میسا بھارتی ایک بار پھر انتخابی میدان میں ہیں جن کا مقابلہ موجودہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ رام کر پال یادو سے ہے۔
کبھی لالو پرساد یادو کے ” ہنومان “ مانے جانے والے رام کر پال یادو نے بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ کر آر جے ڈی سربراہ کی بیٹی میسا بھارتی کو شکست دی تھی۔
لوک سبھا انتخاب 2014 سے پہلے پاٹلی پتر سیٹ پر رام کرپال یادو کا نام آرجے ڈی کی جانب سے یقینی ماناجا رہا تھا لیکن عین وقت پر لالو پرساد یادو نے رام کرپال یادو کو ٹکٹ نہ دے کر اپنی بیٹی میسا بھارتی کو ٹکٹ دے دیا۔ رام کرپال یادو لالو پرساد یادو کے اس فیصلے سے ناراض ہوئے، انہوں نے فیصلے کی مخالفت کی اور بغاوتی تیور اپنایا اور بی جے پی نے موقع کا فائدہ اٹھاکر انہیں ٹکٹ دے دیا۔
انتخاب سے پہلے ایسا مانا جارہا تھا کہ رام کر پال یادو بی جے پی میں جا کر اور پاٹلی پتر سے لالو پرساد یادو کی بیٹی کے خلاف انتخاب لڑ کر اپنے پیر پر کلہاڑی مار رہے ہیں لیکن انہوں نے میسا بھارتی کو ہرا کر سب کو چونکا دیا ۔
رام کرپال یادو نے محترمہ بھارتی کو 40 ہزار 322 ووٹوں کے فرق سے ہرایا۔ جے ڈی یو کے امیدوار رنجن پرساد یادو تیسرے نمبر پر رہے۔ رام کر پال یادو کا 2014 میں بغاوت کر بی جے میں شامل ہونا کسی وردان سے کم نہیں رہا اور نریندر مودی کابینہ میں بھی انہیں جگہ مل گئی۔
پاٹلی پتر پارلیمانی سیٹ پر آرجے ڈی کے صدر لالو پرساد یادو کی بیٹی اور راجیہ سبھا کی رکن میسا بھارتی ایک بار پھر قسمت آزما رہی ہیں وہیں لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ اور بی جے پی امیدوار رام کر پال یادو انہیں چیلنج دینے کیلئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔
لوک سبھا کے رکن رام کر پال یادو اور راجیہ سبھا کی رکن میسا بھارتی کے مابین اس بار بھی مقابلہ کافی دلچسپ ہوگا۔ پاٹلی پتر سیٹ کا انتخاب ایک سیٹ بھر کی بات نہیں ہے بلکہ اسے راشٹریہ جنتادل ( آرجے ڈی ) سپریمو لالو پرساد یادو کے وقار سے جوڑ کر بھی دیکھا جا رہا ہے ۔
اس بار کے انتخاب میں بی جے پی اور آڑجے ڈی دونوں جماعتوں کے امیدوار اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ میسابھارتی ، لالو یادو کے مسلم ۔ یادو ( ایم وائی ) اتحاد کے بل بوتے انتخاب میں جیت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ وہیں بی جے پی امیدوار رام کرپال یادو ترقی اور مودی کے نام پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس سیٹ پر میسا بھارتی کے سامنے اپنے والد لالو پرساد یادو کے وقار کو بچانے کا چیلنج ہے تو وہیں بی جے پی امیدوار رام کرپال یادو کے سامنے اس حلقے سے دوسری بار جیت درج کرنے کا چیلنج ہے۔
چارہ کرپشن کیس میں سزا یافتہ لالو پرساد یادو اس بار انتخابی تشہیری مہم میں شامل نہیں ہیں۔ گذشتہ بار بیٹی کیلئے انہوں نے خوب تشہیر کی تھی ۔ باوجود اسکے مودی لہر میں رام کرپال فاتح ہوئے تھے۔ اس بار تو لالو اپنی بیٹی کے لئے تشہیر بھی نہیں کر پا رہے ہیں ۔
ماں رابڑی دیوی اور بھائی تیجسوی یادو نے ہی میسا کے تشہیر کی ذمہ داری سنبھال رکھا ہے۔ کہاجا رہا ہے کہ پاٹلی پتر سے بیٹی میسا بھارتی کی جیت کے لئے لالو یادو نے آرہ میں سی پی آئی مالے کی حمایت کی ہے۔ سی پی آئی مالے نے بھی پاٹلی پتر لوک سبھا سیٹ پر آرجے ڈی امیدوار میسا بھارتی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔
پاٹلی پتر سیٹ پر گذشتہ انتخاب میں سی پی آئی مالے کو جتنے ووٹ ملے تھے اس سے کم ووٹ سے میسا بھارتی انتخاب ہار گئی تھیں۔ سنہ 2014 میں بی جے پی امیدوار رام کرپال یادو نے جیت درج کی تھی۔ تب دوسرے مقام پر رہیں آرجے ڈی امیدوار میسا بھارتی قریب چالیس ہزار ووٹ سے ہار گئی تھیں۔ اس سے زیادہ قریب 51000 ہزار ووٹ سی پی آئی مالے امیدوار رامیشور پرساد کو ملے تھے۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو آرجے ڈی اپنے اس سیاسی داﺅکے بدولت میسا بھارتی کی کشتی پار لگانے کی کوشش میں ہے۔
حالانکہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ رام کرپال یادو نے بھی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ پاٹلی پتر پارلیمانی حلقے میں چھ اسمبلی کی سیٹیں ہیں۔ پاٹلی پتر لوک سبھا سیٹ کے تحت دانا پور، منیر پھلواری ( محفوظ ) ، مسوڑھی ( محفوظ) پالی گنج اور وکرم گنج اسمبلی حلقے آتے ہیں ۔
داناپور سے آشاد یوی ( بی جے پی ) منیر سے بھائی ویریندر ( آرجے ڈی ) ، پھلواری ( محفوظ) سے جے ڈی یو کے رہنما شیام رجک رکن اسمبلی ہیں جوکہ کبھی لالو یادو کے خاص ہوا کرتے تھے ۔ اس سیٹ پر یادو اور بھومیہار کثیر تعداد میں ہیں جن کا ووٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
مسوڑھی اسمبلی سیٹ پر فی الحال آرجے ڈی کا قبضہ ہے ۔ یہاں سے ریکھا دیوی رکن اسمبلی ہیں۔ پالی گنج سیٹ پر بھی آرجے ڈی کا قبضہ ہے اور جے وردھن یادو یہاں سے رکن اسمبلی ہیں۔ بکرم اسمبلی سیٹ سے کانگریس کے سدھارتھ رکن اسمبلی ہیں۔
پاٹلی پتر پارلیمانی حلقہ بہار کا بیحد اہم ترین علاقہ ہے ۔ گنگا ندی کے کنارے بسے اس شہر کو تقریباً 2000 سال قبل پاٹلی پتر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ سمراٹ اجات شترو کے جانشیں اودین نے اپنی راجدھانی کو راجگیر سے پاٹلی پتر منتقل کیا اور بعد میں چندر گپت موریہ نے یہاں اپنی سلطنت قائم کر اپنی راجدھانی بنائی ۔
پاٹلی پتر پارلیمانی حلقے میں ترقی کی بات کریں تو کئی دوردراز گاﺅں، خاص کر دیارا کے علاقوں میں بجلی سپلائی بحال ہوئی۔ پٹنہ میں پائپ لائن گیس سپلائی کی داناپور ۔ نوپت پور علاقے سے ہوئی۔
دو نئے سی این جی اسٹیشنز کھلے۔ آٹھ لین کی دانا پور ۔ کھگول سڑک کی تعمیر کاکام شروع ہوا۔ بہٹا میں ای ایس آئی اسپتال کا سنگ بنیاد، ایمس، پٹنہ میں ایمرجنسی خدمات اور ٹراما سینٹر کی شروعات، پٹنہ ۔ اورنگ آباد نیشنل ہائی وے کی تعمیر، گنگا پر مستقل پل، اور سینچائی کے مسائل یہاں کے اہم مدعے ہیں۔
سترہویں لوک سبھا انتخاب (2019 میں پاٹلی پتر پارلیمانی سیٹ سے کل 25 امیدوار قسمت آزما رہے ہیں۔ ان میں بی جے پی، آرجے ڈی، بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی )، شیو سینا اور سات آزاد امیدوار سمیت 25 امیدوار شامل ہیں۔
اس لوک سبھا حلقہ میں تقریباً انیس لاکھ 09 ہزار ووٹرز ہیں ان میں 9 لاکھ 99ہزار مرد اور 9 لاکھ 10 ہزار خواتین شامل ہیں جو ساتویں اور آخری مرحلے میں 19 مئی کو ہونے والے انتخابات میں 25 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔