ویڈیو میں صاف طور پر نظر آ رہا ہے کہ مسلم نوجوان تبریز کی بے رحمی سے پٹائی کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود پولیس نے رپورٹ میں تشدد کا ذکر تک نہیں کیا۔
جھارکھنڈ کے سرائے کیلا میں بھیڑ کے ذریعہ مسلم نوجوان تبریز کے قتل معاملہ میں پولس محکمہ کی جانبداری صاف دکھائی دے رہی ہے۔ جو پولیس تبریز کے گھر والوں کو انصاف دلانے کا دَم بھر رہی ہے اس نے اپنی رپورٹ میں ہجومی تشدد کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔
خبروں کے مطابق پولیس نے شکایت میں اس بات کا تذکرہ تک نہیں کیا ہے کہ تبریز پر بھیڑ نے حملہ کیا تھا۔ بلکہ پولیس نے اپنی روپورٹ میں تبریز کو چوری کا ملزم قرار دیا ہے۔
حالانکہ اس واقعہ سے جڑا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔ ویڈیو میں بھیڑ مسلم نوجوان کو بے رحمی سے پیٹتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یڈٰیو میں یہاں تک سنائی دے رہا ہے کہ کچھ لوگ تبریز سے 'جئے شری' رام اور 'جئے ہنومان' کے جبرا نعرے لگوا رہے ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ پولیس نے اسی ویڈیو کو بنیاد مانتے ہوئے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ پولیس نے اس تعلق سے اب تک 11 لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔
ساتھ ہی اس معاملے میں لاپروائی برتنے کے الزام میں دو پولس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ معطل پولس اہلکار خرساواں اور سنی پولیس تھانوں میں تعینات تھے، جس علاقے میں اس واردات کو انجام دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 17 جون کو بھیڑ نے تبریز انصاری نام کے مسلم نوجوان کی چوری کے شبہ میں کئی گھنٹوں تک پٹائی کی تھی۔ اس سے جئے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے بھی لگوائے گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد نوجوان کو 18 جون کو پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔ پولس نے نوجوان کو عدالت میں پیش کیا جہاں سے عدالت نے نوجوان کو عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔ خبروں کے مطابق نوجوان کو 22 جون کو سنگین حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، جہاں علاج کے دوران وہ ہلاک ہو گیا۔