بھاگلپور کی قدیم ترین کالونیوں میں سے ایک مجاہد پور کا علاقہ کے زیادہ تر ہینڈ پمپ سوکھ گئے ہیں اور پانی کا لیول نیچے ہوجانے کی وجہ سے ہینڈ پمپ شو پیس بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن اس علاقے کے وارڈ کاؤنسلر نے عوام کی ضرورت کے تحت چھوٹے چھوٹے پیاؤ لگا کر پانی کی قلت کچھ حد تک دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
پانی کے لیے ترس ر ہے ہیں بھاگلپور کے لوگ - پانی کی قلت
پورے شمالی بھارت کی طرح بھاگلپور میں بھی شدید گرمی سےلوگ پریشان ہیں۔ ویسے تو پانی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں اور جب گرمی میں پانی کی قلت جان لیوا ثابت ہوتی ہے اور ایسا ہی حال بھاگلپور کے چند علاقوں میں ہے۔ جہاں پانی کی قلت سے لوگ پریشان ہیں اور حکومت ان کی پریشانیوں سے بے خبر ہے۔
حسین آباد سے متصل بندھو لین وارڈ نمبر 44 کے لوگ پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔ دن کے قریب ایک بجے ہیں اور دھوپ کی تپش کے بیچ یہ عورتیں گڈھے میں لگے نل سے گرتے پانی کے قطروں کو امرت کی طرح اپنے برتنوں میں جمع کر رہی ہیں۔
ان لوگوں کو دیکھ کر "جل ہی جیون ہے" محاورہ کا حقیقی مطلب سمجھ میں آجاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہےکہ یہ عورتوں کو سارے کام چھوڑ کر پانی کے لیے روزانہ اسی طرح جدوجہد کرنا پڑتا ہے۔
پانی کی اس شدید قلت کیلئے یہاں کےلوگ وارڈ کاؤنسلر اور اپنے نمائندوں کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہزاروں کی آبادی کے درمیان محض ایک چھوٹی سی ٹنکی ہے، اس کی بھی حالت یہ ہے کہ اس کا نظم صحیح نہیں ہے۔
پانی ٹنکی کے پاس لگے نل اور بیسن میں کچڑا پڑا ہے، اس نل میں بھی پانی نہیں آتا ہے کہ لوگ اس سے پانی لے سکیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پانی سے جو پائپ لگائے گئے ہیں وہ بھی ان لوگوں نے اپنے پیسے خرچ کرکے لگائے ہیں۔ اس کے باوجود بھی پانی نہیں مل پاتا ہے۔
پانی کے لئے جدوجہد کرتے لوگوں کی شکایت ہے کہ ان لوگوں کی بات نہ ہی وارڈ کاؤنسلر سنتا ہے اور نہ ہی افسران کو ان لوگوں کی فکر ہے ایسے میں ان لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔