اس موقع پر صدر شعبۂ اردو کے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ ہم آزمائش سے پُر سیاہ دور سے گزر رہے ہیں۔ ایسا کڑا وقت اردو ہی کیا انسانیت کی تاریخ میں شاید ہی گزرا ہو۔ ان حالات میں اردو کی اہم شخصیات بالخصوص شاہد علی خاں،شوکت حیات، انجم عثمانی، مشرف عالم ذوقی، مولا بخش اور ان سے پہلے پروفیسرظفرالدین کا راہ عدم ہوجانا تکلیف دہ تو ہے ہی، ساتھ ہی اردو شعر وادب کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی شاید ممکن نہیں۔
مشرف عالم ذوقی سے میرا تعلق گزشتہ تیس برسوں سے تھا۔ وہ بہت دوست دار، بے تکلف بے باک اور ہمدرد انسان تھے۔ ذوقی صاحب قلم کی حرمت سے واقف تھے۔ ان کے افسانوں اورناولوں پرزبان وبیان کے حوالے سے گفتگو ہوسکتی ہے، البتہ ایک ادیب کی جو ذمہ داری ہوتی ہے، اس کوانھوں نے بحسن وخوبی ادا کیا ہے۔ وہ حق وصداقت کی زندہ مثال تھے۔ ان کی تخلیقی نگارشات میں ایک جذبہ ہے، وہ مظلوموں کی نمائندگی کے مقصد کے تحت لکھ رہے تھے۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے میزد کہا کہ مشرف عالم ذوقی ظالموں کے خلاف سوشل میڈیا پربہت کچھ لکھتے تھے نیز انھوں نے اپنی بے باکی اور دانشوری نیز دوراندیشی کا ثبوت حالیہ دنوں میں شائع ہونے والے ناولوں اور اپنے صحافتی مضامین میں دیا ہے۔ وہ مصلحت کوشی سے عاری اور حق و انصاف کے علم بردار تھے۔ ہماری درخواست پر کئی مرتبہ شعبے میں تشریف لائے۔ وہ طلبہ سے گھرے گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے۔
پروفیسر آفاقی نے انجم عثمانی کے متعلق خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انجم عثمانی نستعلیق شخصیت کے مالک تھے۔ دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو مجلس میں ان سے ملاقاتیں رہیں۔ انھوں نے جو افسانے لکھے وہ اپنے وقت کے بہترین ترجمان ہیں۔ شاہد علی خاں مکتبہ جامعہ کے مینیجر تھے۔ انھوں نے مکتبہ جامعہ، کتاب نما اور پیام تعلیم کو جو بلندی عطا کی اس کا تصور خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ وہ طلبا اور نئی نسل کے لکھنے والوں کے ساتھ نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا حوصلہ اسی طرح قائم رہا وہ برسوں تک نئی اور پرانی نسل کی تحریروں کی اصلاح کرتے رہے اور انھیں اپنے رسالوں میں اہتمام کے ساتھ شائع کرتے۔ رسالوں کو ایسے باصلاحیت، بامروت اور وضع دار مدیرشاید ہی ملے۔
انہوں نے پروفیسر مولا بخش کے سانحہ ارتحال پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر مولا بخش سے میرا تعلق اس وقت سے ہے جب وہ رانچی میں زیرتعلیم تھے۔ انھوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بہت محنت و مشقت کی اور کئی طرح کے کام کیے جن سے ان کی محنت اور لگن کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے صرف کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور یہ محنت رنگ لائی۔
بعد ازاں پروفیسر مولا بخش کی تحریروں میں رفتہ رفتہ نکھار آتا گیا۔ ان کی تقریر و تحریر میں ایک نوع کی تازگی ہوتی تھی جوقارئین اور سامعین کو فکر و خیال پر ابھارتی تھی۔ مشرقی اور مغربی روایات پر ان کے قلم میں ان کی مضبوط گرفت تھی، اگر یہ کہا جائے کہ معاصر ناقدین میں وہ سب سے سربلند تھا تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ وہ ادھر تنقید پر مسلسل کام کررہے تھے۔ ہماری درخواست پر دستک کے لیے کبیر کے تعلق سے ایک بھرپور مقالہ لکھا جو تازہ شمارہ کبیر نمبر میں شامل ہے۔