بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جموں و کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو جموں و کشمیر میں انسداد جرم کے عدالتی نظام کو بالائے طاق رکھ کر احتسابی نظام، شفافیت اور انسانی حقوق کو نظر انداز کرتا ہے۔
تنظیم کی بھارتی اکائی 'ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا' نے آج ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس قانون کے تحت نظر بند کیے گئے متعدد افراد کی روداد بیان کی گئی ہے۔
حکام نے ایمنسٹی کے کارکنوں کو پریس کانفرنس منعقد کرنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد انہوں نے 'بےلگام قانون کا ظلم' جموں و کشمیر پی ایس اے کے تحت بلا الزام مقدمہ اور نظربندی کے عنوان سے رپورٹ آن لائن جاری کی۔
اس رپورٹ میں سنہ 2012 سے سنہ 2018 کے درمیان پی ایس اے قانون کے تحت نظربند ہونے والے 210 قیدیوں کے مقدمات کا تجزیہ کیا گیا ہے، یہ قانون کسی بھی شخص کو دو برس تک انتظامی نظربندی میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل نے اس بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ 'یہ پی ایس ایک بیان میں اے قانون کو کس طرح انتظامی انسانی حقوق کے بھارتی اور بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرکے انتظامی نظربندی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس قانون کی وجہ سے ریاستی انتظامیہ اور مقامی آبادی کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے اسے فورا منسوخ کردیا جائے'۔
پی ایس اے قانون کا متن بذات خود بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت بھارت پر عائد کئی ذمہ داریوں سے انکار کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ان ذمہ داریوں میں قیدیوں کے منصفانہ مقدمے کے حقوق کا احترام بھی شامل ہے۔
اس بریفنگ میں قیدیوں کے کئی حکومتی دستاویزات اور نظربند افراد کے قانونی کاغذات کی تحقیقات کرکے یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح جموں و کشمیر انتظامیہ پی ایس اے کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی کررہی ہے۔
اس پامالیوں میں بچوں کی نظربندی، پی ایس سے کی تمام احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کرکے مبہم انداز میں احکامات صادر کرنا، 'ریوالونگ ڈور ڈیٹینشن' کا استعمال کرنا اور قیدیوں کو ضمانت پر رہای سے روکنا شامل ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے بتایا ہے کہ 'ریوالونگ ڈور ڈیٹینشن' کے 71 واقعات میں حکام نے یا تو حراست میں لینے کا نیا حکم جاری کیا، یا نظربند شخص کو ایک نئی رپورٹ کے ذریعہ پکڑا گیا تاکہ وہ ضمانت پر چھوٹ نہ سکیں۔
ایمنسٹی نے کہا کہ 90 فیصد واقعات میں پایا گیا کہ نظربند افراد کو ایک ہی الزام میں پی ایس اے قانون اور انسداد جرم کے دوسرے قانون کے تحت کی جانے والی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی طرف سے اس بریفنگ کے لیے تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کرنے والے ظہور وانی نے بتایا کہ 'پولیس پی ایس اے قانون کو سکیورٹی نیٹ کے طور پر استعمال کرتی ہے، تاکہ نظربندی سے رہا ہونے والے مشتبہ افراد کو یا انہیں جو ضمانت پر رہا ہوسکتے ہیں حراست میں رکھ سکے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'مقامی وکیلوں سے بات چیت میں اندازہ ہوا کہ ریاستی پولیس انسداد جرم کے دوسرے کسی قانون کے تحت کاروائی کو ترجیح نہیں دیتی ہے کیوں کہ اس کے لیے مستحکم ثبوت اور بے گناہی کے امکانات کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے'۔
ایمنسٹی انڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ بہت سے نظربندی کے واقعات میں پولیس کے ذریعہ درج تفصیلات اور ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے جاری پی ایس اے قانون کے تحت احکامات ایک ہی جیسے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر عمل درآمد بغیر سوچے سمجھے کیا گیا ہے۔
سنہ 2018 میں پی ایس سے قانون میں جو ترمیم کی گئی اس کے ذریعہ قیدیوں کو ان کے گھروں سے دور جیلوں میں رکھا گیا، جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں کو نظرانداز کرنا ہے۔
دریں اثنا یہ بھی پایا گیا کہ وہ افراد جنہیں بے لگام طریقے سے پی ایس اے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، اور بعد میں وہ الزامات سے بری قرار پائے گئے تو انہیں ملازمت حاصل کرنے یا تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا جموں و کشمیر کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پی ایس اے اور اس جیسے تمام قوانین کو جو انتظامی نظربندی کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں اسے فورا منسوخ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس قانون کے تحت غیر قانونی طور پر نظربند تمام افراد مکمل طور پر رہا ہوں اور ان کی مشکلات دور ہو سکے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انڈیا نے جموں و کشمیر کی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی حراستوں اور قید میں اذیت رسانیوں اور تشدد کے تمام الزامات کی آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو سزا دلائے۔
آکار پٹیل نے کہا کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ باقاعدگی سے حراست کے ان تمام احکامات کو رد کرتا رہا ہے جن میں احتیاط سے کام نہیں لیا گیا تھا، لیکن اس سے ایگزیکٹو حکام کے اختیارات پر اثر نہیں پڑا۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں سنہ 2019 میں ہی نئی ریاستی حکومت کا انتخاب عمل میں آئے گا، اس طرح حکومت کو موقع ملے گا کہ وہ ماضی کے برخلاف جموں و کشمیر کے عوام کو اس بات کا یقین دہانی کرائے کہ ان کے حقوق سرکار کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، اور حکومت کو کسی قیمت پر یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔