نئی دہلی:سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ کے پُرامن احتجاج کے تین سال مکمل ہوگئے۔ اس احتجاج نے ملک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں شاہین باغ کو مشہور کردیا تھا اور ہر شہر میں شاہین باغ بنا دیا تھا۔ اس احتجاج کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کلیدی کردار بزرگ خواتین ادا کر رہی تھیں۔ انہیں خواتین میں سے ایک نورالنسا دادی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کی۔ نورالنسا نے کہا کہ شاہین باغ میں جو احتجاج 15 دسمبر 2019 کو شروع کیا گیا تھا اس میں شامل ہونے والی خواتین میں کوئی لالچ نہیں تھی بلکہ سب لوگ مرکزی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پاس کیے گئے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر خلاف ناراضگی تھی اور اسی کو ختم کرانے کے لیے یہ دھرنا تھا۔ Women Participants in Shaheen Bagh Protest
Shaheen Bagh Protest Anniversary 'شاہین باغ احتجاج میں شامل خواتین پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد'
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں ہونے والے خواتین کے دھرنے میں شامل رہی بُزرگ خاتون نورالنسا نے کہا کہ 'شاہین باغ احتجاج میں جن خواتین نے بھی شرکت کی تھی وہ حکومت سے ناراض تھیں اور احتجاج کا حصہ بنیں جبکہ انہیں کوئی دوسرا لالچ نہیں تھا۔ Shaheen Bagh protest
انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی آرگنائزر نہیں تھا، دھرنے میں بیٹھنے والی ہر خاتون میں مرکزی حکومت کے خلاف زبردست ناراضگی تھی لیکن جس طرح سے دھرنے میں بیٹھنے والی خواتین پر الزامات لگائے گئے کہ وہاں بریانی کھانے کے لئے لوگ جاتے ہیں یا پھر پیسے لے کر دھرنے میں بیٹھتی ہیں، یہ سب باتیں سراسر بے بنیاد اور غلط ہیں۔ شاہین باغ کے دھرنے میں شامل دادی نورالنسا نے کہا کہ احتجاج کے دوران مسلمانوں کو زبردست بدنام کیا گیا جبکہ اس دوران ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے کئی تشدد کئے گئے اور اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا، انہوں نے کہا کہ حالانکہ دھرنے سے انہیں مکمل کامیابی نہیں مل سکی لیکن اس کا دباؤ کافی اثر دار رہا۔ Allegations Against Women Participants in Shaheen Bagh Protest
واضح رہے کہ شاہین باغ میں 15 دسمبر 2019 کو ٹھنڈ کے دنوں میں یہاں کی خواتین نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا جو 24 مارچ تک جاری رہا لیکن کورنا کی وجہ سے پولیس نے دھرنا ختم کروا دیا لیکن آج تک لوگ اس دھرنے کو یاد کر رہے ہیں۔ شاہین باغ احتجاج نئی دہلی کے علاقہ شاہین باغ میں ہوا تھا، یہ احتجاج شہریت ترمیمی بل 2019 کے بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور ہو جانے کے بعد شروع ہوا تھا۔ لوک سبھا سے منظور ہو جانے کے بعد 11 دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا میں یہ مسودہ قانون پیش ہوا اور طویل بحث اور زبردست مخالفت کے باوجود عددی برتری کے باعث منظور ہو گیا۔ چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاج شروع کیا تو دہلی پولیس نے جواباً ان پر وحشیانہ کارروائی کر دی تھی۔ پولس کی اس بربریت کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کا آغاز کیا جو کئی مہینوں تک چلا۔