مرکزی حکومت کی جانب سے لائے گئے نئے زرعی قوانین پر کسان تنظیموں اور حکومت کے درمیان گیارہ دور کی بات چیت ہوئی لیکن یہ ساری قواعد بے نتیجہ رہی۔ حکومت اور کسان رہنماؤں کے مابین ابھی تک بات نہیں بن پائی ہے جس کی وجہ سے کسانوں نے احتجاج جاری رکھا ہے اور قومی دارالحکومت دہلی میں 26 جنوری کو ٹریکٹر پریڈ نکالنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کی تیاریاں بھی تقریباً مکمل ہوگئی ہیں۔
کسان احتجاج میں خواتین بھی پیش پیش کل 26 جنوری (یوم جمہوریہ کو) ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا ٹریکٹر پریڈ ملک بھر اور پوری دنیا کے لوگ دیکھیں گے۔
حکومت اور کسان تنظیموں کے مابین ابھی تک 11 میٹنگیں ہوچکی ہیں لیکن کوئی بھی حتمی نتیجہ نہیں نکلا۔ کسانوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت ان قوانین کو واپس لے۔
ایک جانب جہاں گزشتہ تقریباً 2 ماہ سے کسان سنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈر و دوسرے مقامات پر ڈٹے ہوئے ہیں تو وہیں دوسری جانب انہیں دیگر ریاستوں کے کسان بشمول خواتین کی بھی حمایت حاصل ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے خواتین نے کہا کہ وہ حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف ہورہے احتجاج کی حمایت کے لیے نکلی ہیں تاکہ وہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ ان کی تحریک میں شامل ہوں اور حکومت تک یہ پیغام پہنچادیں کہ انہیں یہ قوانین واپس لینے ہی ہوں گے۔
اس دوران خواتین ٹریکٹر چلاتی ہوئی بھی نظر آئیں اور ان ٹریکٹرز پر 'کسان ایکتا زندہ باد' کے پرچم لہرائے گئے۔ مارچ کے دوران خواتین نے کہا کہ یہ زرعی قوانین نہ صرف کسانوں بلکہ عام آدمی کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔
ٹریکٹر چلانے والی خواتین کسانوں نے کہا کہ 'آج ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے اور اس بات کی خوشی ہے کہ پورا ملک ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان قوانین سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ اور کسانوں کو انکی محنت اور اجرت کا پھل نہیں ملے گا۔
واضح رہے کہ حکومت اور کسانوں کے مابین ہونے والی 11 میٹنگز کے بعد حکومت نے ان قوانین کے نفاذ کو ڈیڑھ برس تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے لیکن کسان اس بات کو بھی خارج کرتے ہوئے اپنے مطالبے پر اٹل ہیں اور قوانین کو واپس لینے پر بضد ہیں۔