سرسید احمد خاں نے بھارتی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد، مسلمانوں کے لیے سرسید احمد خان انیسویں صدی کے بہت بڑے مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔
'سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑہ اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے تھے، وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُن کی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان 'سائیس،خانساماں، خدمت گار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ کرسکیں گے'۔
ایسے وقت میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کیا، سائنس، جدید ادب، معاشرتی علوم سمیت انگریزی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قراردیا اور کہا کہ وہ ان علوم کے ذریعہ ہندوؤں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کرسکیں گے۔
سرسید احمد خان کی آج 204 ویں یوم پیدائش ہے، سرسید احمد خان بن متقی خان 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیداہوئے۔
سرسید احمد خان کے آباؤ و اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے بھارت آئے تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم عربی وفارسی اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔اس کے علاوہ انہوں نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔
- یہ بھی پڑھیں:وہ خون جو 1857 میں حصار کی مختصر دور کی آزادی کے لیے بہا
- وارانسی کی عظیم یادگار ’بھارت ماتا مندر‘، جہاں اکھنڈ بھارت کا حیرت انگیز نقشہ ہے
ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا، سنہ 1837 میں آگرہ میں کمشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے عہدہ سنبھالا۔ سنہ 1841 اور 1842 میں مین پوری اور 1842 اور 1846 تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات انجام دیں۔
محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے سنہ 1846 میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران آپ نے اپنی مشہور کتاب 'آثار الصنادید' سنہ 1847 لکھی، سنہ 1857 میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہوگیا۔ضلع بجنور میں قیام کے دوران 'سرکشی ضلع بجنور' لکھی، جس میں جنگ کے حالات کا ذکر ہے۔ سنہ 1857 کے دوران ونہں نے بجنور میں ہی قیام پذیر تھے۔