لگ بھگ ایک ماہ قبل قائد حزبِ اختلاف غلام نبی آزاد نے اپنی الوداعی تقریر میں کانگریس کا اتنا تذکرہ نہیں کیا جتنا وہ وزیر اعظم کے بارے میں بولے۔ جب وزیر اعظم نے بھی قائد حزب اختلاف کے حق میں اپنی مؤثر اور جذباتی تقریر کرتے ہوئے ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈال دی۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے ماضی کے ایک واقعہ کو دہراتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ جب آزاد جموں کشمیر میں وزیر اعلیٰ تھے، تو کس طرح سے انہوں نے گجرات کے سیاحوں کی مدد کی جو کشمیر میں تشدد کی زد میں آگئے تھے۔
پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں، جو راجیہ سبھا کے چار اراکین شمشیر سنگھ، نذیر احمد، فیاض احمد اور غلام نبی آزاد کی سبکدوشی کے موقع پر اُنہیں رسمی طور پر الوداع کہنے کے لئے بلایا گیا تھا، توجہ کا مرکز آزاد ہی بنے رہے۔
حزب اختلاف کے لیڈر کو الوداع کہتے ہوئے وزیر اعظم کی آنکھیں نم تھیں اور وہ مسلسل اُن کی تعریفیں کرتے رہے۔ دفعہ 370 کو کالعدم کرنے کا ذکر کیے بغیر مودی نے بتایا کہ کس طرح سے سبکدوش ہونے والے اراکینِ پارلیمان اپنی اس میعادِ کار کے دوران تاریخی فیصلوں کا حصہ بن گئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزاد نے بھی اپنی تقریر میں اپنے الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا اور تقریر میں دفعہ 370 کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ایسی کوئی بات کہی جو بی جے پی کو ناگوار گزرتی۔
اب اس الوداعی گیم کے سیاسی نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ بالخصوص ان نتائج کے عندیے اُس وقت سے صاف نظر آنے لگے ہیں، جب سے G23 گروپ میں شامل کانگریس لیڈروں، جنہوں نے سونیا گاندھی کے نام خط میں پارٹی کے اندر تعمیرِ نو کا مشورہ دیا تھا، نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے۔
یہ ایک آزمودہ بات ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز اچانک رونما نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر چیز منصوبہ بند اور طے شدہ ہوتی ہے۔ اتوار کو جموں کے جلسے سے میں آزاد کی تقریر میں کانگریس کو ازسرِ نو متحرک کرنے کے بارے میں باتوں سے زیادہ مودی کا تذکرہ سننے کو ملا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کچھ اہم ہونے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہونے والا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں لیڈر، یعنی مودی اور آزاد باہمی فائدہ حاصل کرپائیں گے۔
آزاد اپنی غیر جانبداری، جو اُنہوں نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے راجیہ سبھا میں کی گئی اپنی آخری تقریر میں بھی قائم رکھی، کو برقرار رکھتے ہوئے، مودی کے حق میں کوئی کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ وہ اس حد تک غیر جانبدار ہیں اور سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں کہ جب وہ راجیہ سبھا میں مودی کے حق میں بول رہے تھے تو پل بھر کے لئے بھی نہیں لگا کہ وہ کانگریس یا گاندھی پریوار سے اپنی وابستگی کو کم درجہ دے رہے ہیں۔