اس تاریخی وراثت کی تاریخ کو عوام تک پہنچانے کے لیے ایسوسی ایشن آف مسلم انٹلیکچول اور احمد شاہ آرمی کی جانب سے سفر وراثت پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔
اس سفر وراثت کے گائڈ آصف شیخ نے خان جہاں مسجد کے تعلق سے بتایا کہ شوراشٹر کا سب سے بڑا شہر جوناگڑھ تھا اور اس کے راجا راہ مانڈلک تھے۔ اس وقت محمود بیگڑا جو گجرات کی آزاد سلطنت کے حاکم تھے۔ انہوں نے 1467 میں جونا گڑھ پر حملہ کیا اور اسے گجرات سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ اس وقت مانگرول سے ایک شکایت آئی کہ راہ مانڈلک مسلمانوں کو پریشان کرتے ہیں اور وہاں کے لوگوں نے احمد آباد کے شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا۔
شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی گذارش پر محمود بیگڑا نے دوبارہ نہ صرف وہاں حملہ کیا بلکہ شرط رکھی کہ آپ اسلام قبول کر لیں یا پوری زمین کو چھوڑ دیں۔ راہ مانڈلک نے طے کیا کہ وہ اسلام قبول کریں گے اور وہ اگلے سال احمدآباد آئے اور حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے سے اسلام قبول کیا جس کے بعد انہیں خان جہاں کا لقب دیا گیا اور ان ہی کے نام سے احمدآباد کی سابرمتی کے ندی کے کنارے خان جہاں مسجد تعمیر کرائی۔ ان کا مزار احمد آباد کے دوسرے علاقے میں ہے۔ خان جہاں مسجد کے باہر ایک عالیشان دروازہ بھی ہے۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ سنہ 1780 میں جب انگریزوں نے حملہ کیا تھا تو اسی خان جہاں کے دروازے سے انگریز احمدآباد میں داخل ہوئے تھے۔ خان جہاں مسجد محمود بیگڑہ کی آخری دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ احمدآباد کی دوسری شاہی مسجدوں کی طرح یہ مسجد بھی اسی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ بڑے ہی شاندار طریقے سے پلر، گنبد و محراب اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ اس مسجد میں بہت زیادہ تعداد میں لوگ آتے ہیں۔