ملک کے متعدد علاقوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں سو روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ ہوگئی ہیں۔ اگرچہ قیمتوں میں ذرا سی کمی کی گئی ہے لیکن مجموعی طور پر اشیا کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام آدمی کے بجٹ پر اضافی بوجھ پڑا ہوا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے وعدہ کیا ہے کہ اُن کی حکومت ایل پی جی کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لائے گی۔ پیٹرول اور ڈیزل کو بھی اسی طرح سے جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے کے مطالبے پر پارلیمنٹ میں آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پہلے کہا تھا کہ اس طرح کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے لیکن ایک ہفتے کے اندر ہی اُنہوں نے اپنے موقف میں بدلاؤ لاتے ہوئے کہا کہ ایندھن کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے کا اختیار جی ایس ٹی کونسل کے پاس ہے۔
جوں ہی وزیر خزانہ نے یہ اعلان کیا، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سُشیل کمار مودی نے اس کی مخالفت میں آواز بلند کی۔
سُشیل کمار مودی نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کو کم از کم اگلے آٹھ دس سال تک جی ایس ٹی کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا ہے کیونکہ اس طرح سے ریاستوں کو اُن کی سالانہ آمدنی میں دو لاکھ کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
رکن پارلیمان نے کہا کہ 'پیٹرولیم سے ریاستوں اور مرکزی حکومت کو سالانہ پانچ لاکھ کروڑ ٹیکس حاصل حاصل ہوتا ہے۔ حکومتیں ٹیکس لاگو کرنے میں ایک دوسرے کے مقابلہ آرائی میں مصروف ہیں اور انجام کار عام لوگوں کی جیب سے پیسہ اینٹھا جارہا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کی یہ عادت ہوگئی ہے کہ وہ ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار بین الاقوامی بازار میں قیمتوں کے اضافے کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ گھریلو ضرورت پوری کرنے کے لیے بھارت کو 89 فیصد خام تیل اور 53 فیصد رسوئی گیس امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔