اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

ایندھن کی قیمتیں بڑھنے کا ذمہ دار کون ہے؟ - وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن

کورونا وبا کے بحران میں پیٹرولیم کے ٹیکس بڑھا کر لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنا۔

fuel prices
fuel prices

By

Published : Mar 26, 2021, 8:50 PM IST

ملک کے متعدد علاقوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں سو روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ ہوگئی ہیں۔ اگرچہ قیمتوں میں ذرا سی کمی کی گئی ہے لیکن مجموعی طور پر اشیا کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام آدمی کے بجٹ پر اضافی بوجھ پڑا ہوا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے وعدہ کیا ہے کہ اُن کی حکومت ایل پی جی کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لائے گی۔ پیٹرول اور ڈیزل کو بھی اسی طرح سے جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے کے مطالبے پر پارلیمنٹ میں آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پہلے کہا تھا کہ اس طرح کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے لیکن ایک ہفتے کے اندر ہی اُنہوں نے اپنے موقف میں بدلاؤ لاتے ہوئے کہا کہ ایندھن کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے کا اختیار جی ایس ٹی کونسل کے پاس ہے۔

جوں ہی وزیر خزانہ نے یہ اعلان کیا، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سُشیل کمار مودی نے اس کی مخالفت میں آواز بلند کی۔

سُشیل کمار مودی نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کو کم از کم اگلے آٹھ دس سال تک جی ایس ٹی کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا ہے کیونکہ اس طرح سے ریاستوں کو اُن کی سالانہ آمدنی میں دو لاکھ کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

رکن پارلیمان نے کہا کہ 'پیٹرولیم سے ریاستوں اور مرکزی حکومت کو سالانہ پانچ لاکھ کروڑ ٹیکس حاصل حاصل ہوتا ہے۔ حکومتیں ٹیکس لاگو کرنے میں ایک دوسرے کے مقابلہ آرائی میں مصروف ہیں اور انجام کار عام لوگوں کی جیب سے پیسہ اینٹھا جارہا ہے۔

سیاسی رہنماؤں کی یہ عادت ہوگئی ہے کہ وہ ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار بین الاقوامی بازار میں قیمتوں کے اضافے کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ گھریلو ضرورت پوری کرنے کے لیے بھارت کو 89 فیصد خام تیل اور 53 فیصد رسوئی گیس امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔

سال 2008ء میں جب خام تیل کی قیمت 150 ڈالر فی بیرل تھی۔ اُس وقت ملک میں پیٹرول فی لیٹر 50 روپے اور ڈیزل فی لیٹر 35 روپے تھی۔ اب جبکہ خام تیل کی قیمت فی بیرل 60 ڈالر ہے تو ہمارے ملک میں تیل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں تیل کی قیمتیں کو کم نہیں ہونے دیتیں بلکہ ان میں مختلف قسم کے ٹیکس لاگو کرتے ہوئے منافع کماتی ہیں۔

مرکزی وزیر برائے خزانہ نے از خود پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت نے گذشتہ سات برسوں کے دوران پیٹرولیم پر 556 فی صد ٹیکس نافذ کیے ہیں۔

ماضی میں رنگ راجن کمیٹی نے انکشاف کیا تھا کہ مختلف طرح کے ٹیکس عائد کیے جانے کی وجہ سے پیٹرول کی قیمت میں 56 فی صد اور ڈیزل کی قیمت میں 36 فی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ حیران کن ہے کہ آج ایندھن پر ایکسائز ڈیوٹی 70 فیصد ہوگئی ہے۔

حکومت اس بات سے قطع نظر کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی کیا قیمت ہے؟ وہ اس میں اضافہ کرتی جارہی ہے اور مختلف اقسام کے ٹیکس لاگو کرتی ہے۔ اگر یہ عوام کو لوٹنا نہیں تو اور کیا ہے؟

پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے ایک خوش آئند تجویز دی ہے۔ آر بی آئی گورنر شکتی کانت داس نے تجویز دی ہے کہ مرکز اور ریاستوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تال میل بناتے ہوئے ایندھن کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لائیں تاکہ عوام کو راحت حاصل ہو۔

مرکزی حکومت کو عوام کی بہبود کو ترجیح دیتے ہوئے ایندھن کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔ ریاستی حکومتوں کو بھی اس ضمن میں اقدامات کرنے پر مائل کرنا چاہیے تاکہ عوام کو کچھ راحت مل پائے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details