احمدآباد:بھارت میں جاری مندر مسجد تنازع کے حوالہ سے تاریخ داں سیتا رام گوئل کی کتاب "hindu temple" what happens to them, valume 2 - The islamic evidence بتایا گیا ہے کہ پورے ملک کی 1862 مندروں کو توڑ کر مساجد بنائی گئی ہیں، سیتا رام گوئل کی یہ کتاب 1990 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں گجرات کی مشہور درگاہوں و مساجد کے 170 نام کو بھی درج کیا گیا ہے۔ گجرات میں یہ فہرست سوشل میڈیا پر بھی گشت کر رہی ہے۔ ایسے میں یہ بھی دعویٰ کا جارہا ہے کہ بھدر کالی مندر کو توڑ کر شاہی جامع مسجد کی تعمیر کی گئی ہے جس کی حقیقت ای ٹی وی بھارت اردو کی ٹیم نے جاننے کی کوشش کی۔what is the realty of shahi masjid of Ahmedabad
سب سے پہلے احمدآباد کی شاہی جامع مسجد کی تاریخ اور فن تعمیری پر نظر ڈالتے ہیں۔ شاہی جامع مسجد گجراتی طرز تعمیر کی بہترین مثال ہے۔ سلطان احمد شاہ اول نے اس مسجد کو 4جنوری 1424 اور یکم صفر 827 ہجری میں تعمیر کرایا تھا. جسے عام طور پر جامع مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسجد میں بڑی تعداد میں لوگ نماز ادا کرنے آتے ہیں اور پوری دنیا سے سیاح بھی اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔
جامع مسجد کی خصوصیت کی بات کریں تو اس مسجد کے چاروں جانب ایک مخصوص کالم گزر رہا ہے، جو 260 کالم ستون، 15 گنبدوں کے سہارے کھڑے ہیں۔ ان کالموں میں عربی میں خطاطی کی گئی ہے۔ جس میں اللہ، محمد اور چاروں صحابہ کے نام کے لکھے گئے ہیں جو فن خطاطی کا اہم نمونہ ہے۔ جامع مسجد ہندو مسلم فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے کیونکہ اس جامع مسجد کے کچھ گنبد کمل کے پھولوں کی طرح تراشے گئے ہیں جو جین مندروں کے مخصوص گنبدوں میں اکثر نظر آتے ہیں۔ کچھ ستون زنجیروں پر لٹکی ہوئی گھنٹی کی طرح تراشے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جو اکثر ہندو مندروں میں لٹکتی گھنٹیوں کی طرح ہیں۔ اس مسجد کا وسیع و عریض صحن سنگ مرمر سے سجا ہوا ہے۔ جو 75میٹر لمبا اور 66 میٹر چوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسجد کی محرابیں خوبصورت زرد ریت کے پتھر سے بنی ہوئی ہیں۔ جامع مسجد میں داخل ہونے کے لیے 3 جانب دروازے بنے ہوئے ہیں۔ جامع مسجد کے مرکزی دروازے پر دو مینارے بنے ہوئے تھے جو اب صرف ستون کی طرح نظر آتے ہیں کیونکہ یہ مینارے 1819 اور 1956 کے زلزلے میں منہدم ہو گئے تھے۔