دہلی: مغل بادشاہ شاہجہاں نے جب آگرہ سے اپنے دارالحکومت کو دہلی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے لال قلعہ اور مسجد جہاں نما جسے شاہجہانی جامع مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کی تعمیر کرائی۔ یہ مسجد سال 1650 سے 1656 کے درمیان تعمیر ہوئی۔ مغل دور کی یہ مسجد کافی خاص تھی اسی لیے اس میں امامت کرنے کے لیے بھی اس وقت کے سب سے معزز امام کا انتخاب کرکے امامت کا فریضہ عبد الغفور شاہ بخاری کو سونپا گیا۔ بادشاہوں کا دور بدلتا گیا لیکن جامع مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے والا خاندان نسل در نسل اسی انداز میں امامت کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ اب موجودہ امام اسی خاندان کے 13ویں امام ہیں جب موجودہ امام سید احمد بخاری نے اپنے جانشین اور مسجد کے نائب امام کے طور پر اپنے بیٹے شعبان بخاری کا اعلان کیا تو کچھ لوگوں نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل داخل کرکے اس تقریب پر اسٹے لگانے کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں میں پرانی دہلی کے رہائشی سہیل احمد خان بھی شامل ہیں۔
اس دوران ایک تقریب منعقد کرکے سید احمد بخاری نے اپنے بیٹے شعبان بخاری کو نائب امام مقرر کردیا۔ یہ پی آئی ایل نومبر 2014 میں داخل کی گئی تھی اب جب کہ اس پی آئی ایل کو 8 برس سے زیادہ کا وقفہ گزر چکا ہے اب دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے میں دہلی وقف بورڈ سے سوال کیا ہے کہ وہ اس بات کی جانکاری دیں کہ مسجد میں امام بنائے جانے کا کیا عمل ہے اور کن خصوصیات کے مطابق کسی امام کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ دراصل پی آئی ایل میں یہ کہا گیا تھا کہ جامع مسجد دہلی وقف بورڈ کی ملکیت ہے اور امام بخاری وقف بورڈ کے ملازم ہیں، اس حیثیت سے وہ اپنے بیٹے کو نائب امام مقرر نہیں کر سکتے جس کے جواب میں امام بخاری کی جانب سے داخل حلفی بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جامع مسجد وقف بورڈ کی ملکیت نہیں ہے۔ یہ ایک وقف جائیداد ہے جس کی ملکیت اللہ کے سپرد ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ وہ اور نہ ہی ان کے پیشرو شاہی امام دہلی وقف بورڈ کے ملازم تھے۔