ریلیز کے مطابق صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر گذشتہ کئی ما ہ سے سماعت نہیں ہورہی تھی، پٹیشن پر جلداز جلد سماعت ہونے کے لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی جس پر جسٹس ایل ناگیشورا راؤ اور جسٹس انریدھ بوس نے اس معاملے کی حتمی بحث ماہ ستمبر میں کیئے جانے کا حکم دیا۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت سے جلد از جلد سماعت کیے جانے کی درخواست کی تھی۔
آج سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے بے لگام میڈیا پر شکنجہ کسنے کے اپنے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی، ہماراشروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ باہمی گفت وشنید سے حل نہیں ہوتا تو سٹرکوں پر اترنے کے بجائے ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت جاتے ہیں اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتاہے، لیکن افسوس جب فرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی توہمیں عدالت کا رخ کرنے پرمجبورہونا پڑا۔
مولانا مدنی نے میڈیا کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہاررائے کی مکمل آزادی دی ہے، ہم کلی طورپر اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اگر اظہاررائے کی اس آزادی سے دانستہ کسی کی بھی دل آزاری کی جاتی ہے، کسی فرقہ یاقوم کی کردارکشی کی کوشش ہوتی ہے یا اس کے ذریعہ اشتعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے تو ہم اس کے سخت خلاف ہیں، آزادی اظہاررائے کی آئین میں مکمل وضاحت موجود ہے،لیکن اس کے باوجودمیڈیا کا ایک بڑاحلقہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کے معاملہ میں جج بن جاتا ہے اور انہیں مجرم بناکر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی جیساکہ ماضی میں تبلیغی جماعت کو لیکر اسی طرح کا رویہ اختیارکیا گیا تھا، لیکن افسوس جب بعد میں عدالت انہیں بے قصور قرار دیتی ہیں تو اسی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ میڈیا کایہ دوہرارویہ ملک اوراقلیتوں کے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔
مولانا مدنی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا آزادی اظہاررائے کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے والے اور یکطرفہ رپورٹنگ کرنے والے ملک کے وفادارہوسکتے ہیں؟