دہلی یونیورسٹی کو جمعرات کے روز اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب یونیورسٹی کے نگراں کمیٹی (او سی) کے ذریعہ تمل ناڈو کے دو مشہور خواتین مصنفین اور بنگالی مصنف مہاسویتا دیوی کی تصنیف کو نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تمل ادبی شعبے میں نمایاں کردار نبھانے والی ناول نگار باما اور شاعر سکیرتھرانی کی تصنیف کو بھی ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ اعلی ذات سے تعلق رکھنے والی مصنفہ راما بائی نے لے لی ہے۔
تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والی دو دلت خواتین مصنفین کے کام کو دہلی یونیورسٹی کے نصاب سے ہٹائے جانے والے فیصلے نے ایک نئے تنازع کو جنم دے دیا ہے۔ تمل ناڈو وزیراعلی ایم کے اسٹالن سے لے کر سی پی آئی ایم سے رکن پارلیمان اور ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ایس یو وینکیٹیشن نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔
خود مصنفین نے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فیمنسٹ شاعر کے تئیں اسے غیر جانبدارانہ عمل قرار دیا ہے۔ سکیرتھرانی نے اس فیصلے کو 'اختلاف رائے کی آوازوں کو کچلنے کے اقدام کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا کہ اس فیصلے کے پیچھے مرکزی حکومت کا ہاتھ ہے اور اس سے ان کے مقصد اور ارادے واضح ہیں'۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "میری نظم کو ہٹانا پریشان کن ہے، لیکن یہ غیر متوقع قدم نہیں ہے۔ حکومت مخالف آوازیں، خاص طور پر دلت اور خواتین کی آوازوں کو مسلسل خاموش کیا جاتا رہا ہے۔مرکزی حکومت جان بوجھ کر دلت دانشوروں کو نظر انداز کر رہی ہے اور ذات پات کی سیاست کھیل رہی ہے۔"
واضح رہے کہ ان کی نظموں کو انگریزی میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے اور یہ ہم عصر بھارتی شاعری کے چند مجموعہ کا حصہ بھی ہے۔ ان میں سے کچھ نظموں کو بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
سکیرتھرانی کہتی ہیں کہ 'جن تینوں کے کام کو ہٹا دیا گیا ہے، وہ دراصل دلتوں اور مظلوم عوام کی آوازیں ہیں۔وہ (مرکزی حکومت) سمجھتے ہیں کہ ان آوازوں کو دبا کر وہ بھارت کے ذات پات کے سماجی ڈھانچے کو چھپا سکتے ہیں۔ یہ ان کے ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ وہ چاہتے تو ہماری تحریر کو کسی بھی دوسرے دلت مصنفین کی تحریر سے بدل سکتے تھے لیکن انہوں نے ایک اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے مصنفہ کے کام کو توجہ دی۔ ان میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو ہندوتوا کے نظریے کو اپناتے ہیں۔ یہ مخصوص ذات پر کیا جانے والا حملہ ہے اور اسے ہندوتوا کی سیاست کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
سکیرتھرانی کی دو نظموں کے انگریزی ترجمے کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔ ایک نظم جس کا عنوان ہے،'کائیمرو'(گین) میں انسانی غلاظت اٹھانے والے کارکنوں کی خوفناک زندگی کے بارے میں بتایا گیا۔