علیگڑھ: کسی زمانے میں قالین ایک ایسی تجارت تھی جس سے منسلک افراد ہمیشہ خوشحالی کے امین ہوا کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے کیونکہ اب زیادہ تر قالین بنانے والے کاریگر بے بسی کے آنسو بہار ہے ہیں۔ ضلع علیگڑھ کی 142 سالہ پرانی نمائش میں ضلع بھدوہی کے تاجر یہاں گذشتہ سو برس سے قالین کی منافع بخش تجارت کر رہے ہیں تاہم آج کے اس مشینی دور میں ہاتھوں سے قالین تیار کرنے والے کاریگر اپنی حالت پر ماتم کناں ہیں، جس کے سبب اب علیگڑھ کی نمائش میں قالین کے تاجر منافع نہ ملنے پر مایوس کا شکار ہو رہے ہیں۔
علیگڑھ کی نمائش میں منافع بخش کاروبار کی امید سے آئے بھدوہی کے تاجر احتشام خان کے مطابق بھدوہی کی قالین کی بُنائی کی یہ قدیم وراثت غیر یقینی کے اندھیرے میں کھوتی ہوئی نظر آرہی ہے، کیونکہ پہلے سو فیصد قالین ہاتھوں سے تیار کی جاتی تھیں لیکن اب صرف پچاس فیصد ہی ہاتھوں سے اور پچاس فیصد مشینوں سے تیار کی جاتی ہیں۔ ہاتھوں سے تیار شدہ قالین کے مقابلے مشینوں سے تیار شدہ قالین کی قیمت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مشینوں سے تیار شدہ قالین خریداروں کی پہلی پسند بن جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قالین سے ہونے والی آمدنی میں گراوٹ کے سبب بنکر اب دیگر کام شروع کرنے کو مجبور ہو رہے ہیں۔ بھدوہی کی قالین کو جو چیز خاص اور اعلی بناتی ہے وہ ہے بنکر کے ہاتھوں سے کی جانے والی بُنائی۔ اس میں قالین کو عمودی کرگھے پر بُنا جاتا ہے، گذشتہ دو صدیوں سے یہ طریقہ اور قالین کی بنائی میں استعمال کیا جانے والا خام مال (اون، سوتی اور ریشم کا دھاگہ) نہیں بدلا ہے۔ کرگھے پر ہاتھ سے گانٹھ لگانے کا ہنر بُنکروں کے بچوں کو وراثت میں ملتا ہے۔
گذشتہ 35 برسوں سے علیگڑھ کی نمائش میں آرہے تاجر بابو کا کہنا ہے کہ مشینوں سے تیار شدہ قالین ہاتھوں سے تیار کی جانے والی قالین سے سستی ہوتی ہے، جس کی وجہ قالین کی تجارت کرنے والوں کا کام اب محض چالیس فیصد ہی باقی رہ گیا ہے، کیونکہ پہلے کی حکومت کے مقابلے موجودہ حکومت اب بھدوہی کی قالین سے وابسطہ تاجروں پر کم توجہ دے رہی ہے۔ مہنگائی کے سبب قالین کی بنائی میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن قالین کی قیمتیں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔