حیدرآباد: امرتسر کی گلیوں میں پریڈ کرتے ہوئے کرپانوں، تلواروں اور بندوقوں سے لیس مشتعل سکھ نوجوانوں نے 1980 کی دہائی کی یادیں تازہ کر دیں جب پنجاب کو ملیٹنسی نے زیر کردیا تھا۔ مشتعل مظاہرین نے تھانہ اجنالہ میں تعینات پولیس اہلکاروں پر ہلہ بول دیا اور انہیں یہ وعدہ کرنے پر مجبور کیا کہ وہ لوپریت سنگھ عرف طوفان سنگھ کو رہا کردیں۔ اسی گرفتاری نے دراصل احتجاج کو جنم دیا۔ طوفان سنگھ اصل میں ایک 29 سالہ انجینئر امرت پال سنگھ کا ساتھی ہےجو اپنی شعلہ بیانی سے سکھوں کے لیے علیحدہ وطن یعنی خالصتان کے حق میں باتیں کرکے پنجاب کے نوجوانوں کو متاثر کرنے لگا ہے۔
امرت پال کے قریبی معاون طوفان کو ایک شخص کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھاجس کے خلاف فوری احتجاج شروع کیا گیا۔ انتظامیہ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حالات کیسے ہوں گے؟ امرتسر کے اجنالہ کی سڑکوں پر پولیس یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ امرت پال کی کال کی حمایت میں نوجوانوں کا سیلاب امڈ آیا اور ریاستی سیکورٹی کا نظام ٹوٹ گیا۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے خلاف پولیس نے سخت کارروائی کی لیکن آخر کار انہیں بے بس ہونا پڑا۔ پنجاب کے ڈی جی پی نے طوفان سنگھ کی رہائی کا اعلان اس بنیاد پر کیا کہ وہ اس جگہ پر موجود ہی نہیں تھا جہاں جرم سرزد ہوا ہے۔ اسلئے اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس سربراہ کے طوفان سنگھ کی رہائی پر دئے گئے بیان پر لوگوں کے ذہنوں میں سنت جرنیل سنگھ بھندراں والا کی یاد تازہ ہوگئی۔ بھندراں والا کی رہائی کیلئے بھی ان کے ساتھیوں نے تشدد کا استعمال کیا تھا۔
اس تشدد کے نتیجے میں اسوقت کے حکام بالخصوص مرکزی حکومت پر دباؤ عائد ہوا جسکے بعد 1981 میں بھندراں والا کو ریا کردیا گیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کے فلور پر اس وقت اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر داخلہ گیانی زیل سنگھ نے کہا کہ ایک اخبار کے مالک کے قتل میں بھندراں والا چونکہ ذمہ دار نہیں تھا، اسلئے اسے رہا کردیا گیا۔ پنجاب میں خونریز واقعات کے دوران بھندراں والا کی رہائی کو ان عوامل میں سے ایک اہم کڑی کے طور دیکھا جاتا ہے جنہوں نے خالصتان کی حامی قوتوں کو حوصلہ دیا اور جو آگے چل کر آپریشن بلیو سٹار اور اس کے بعد اس وقت کی وزیر اعظم کے قتل پر منتج ہوا۔ حیرت انگیز طور پر امرت پال سنگھ ، خالصتان کا نعرہ لگاتے ہوئے بھندراں والا کے الفاظ دہراتے ہیں، انکے جیسا ہی لباس پہن رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھنداں والے کے نظریات کی ہی ترویج کررہے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اسی کی دہائی میں سکھ انتہا پسندی کو نزدیک سے دیکھا ہے، پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندوں کی اس نئی فصل کو ہلکے میں نہیں لے رہے ہیں۔
پنجاب کا نصاب پہلے سے لکھا ہوا ہے اور وہ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ سابق مواد سے ہی اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس انداز سے طوفان سنگھ کی رہائی عمل میں آئی اور حکام نے ہاتھ کھڑے کردئے۔ دوسری جانب امرت پال سنگھ نے اپنی بیان بازی ختم نہیں کی۔ ہفتے کے روز، انہوں نے ایک بار پھر پولیس کو دھمکی دی کہ اگر طوفان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تو اسکے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امرت پال سنگھ کو فی الحال آزاد رکھنا نہ صرف ریاست عام آدمی پارٹی بلکہ مرکزی حکومت کے بھی مفاد میں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو انکے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو ملک کے دیگر خطوں میں حکومت مخالف نظریات پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ امرت پال کی یہ سرگرمیاں ریاست کو پولرائز کریں گی جس سے یہ امکان ہے کہ ریاست کی ہندو آبادی متحد ہوجائے گی۔