دہلی کی عدالت میں آج جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کی ضمانت کی عرضی کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عمر خالد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'مشرقی دہلی فسادات سازش معاملے میں یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار عمر کے خلاف پولیس کے ذریعے دائر چارج شیٹ میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے اور جن افسر نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، وہ فرقہ وارانہ ذہنیت رکھتے ہیں'۔
سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے دلائل پیش کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا کہ' چارج شیٹ ایک ٹیلی ویژن چینل کے اسکرپٹ کی طرح لگتی ہے'۔
پیس نے چارج شیٹ میں دئیے گئے بیانات کا موازنہ فلم ہیری پورٹر کے ویلین وولڈ مورٹ اور دیگر مثالوں سے کرتے ہوئے کہا کہ 'پولیس کی جانب سے دائر کی گئی حتمی رپورٹ بالکل 'واحیات' تھی اور ایسے معاملے میں تو کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے'۔ تاہم عدالت نے اس معاملے کو اب پیر تک ملتوی کردیا ہے۔
پیس نے عدالت میں گواہوں کے بیانات کے بدلنے پر بھی اعتراض ظاہر کیا۔ انہوں نے اپنے دلائل کو شروع کرتے ہوئے کہا کہ 'گواہوں کے بیانات من گھڑہت ہیں'۔ وہ ہر بار اپنے بیانات بدل رہا ہے تو کیا ہم کسی آدمی کو جیل میں رکھنے کے لیے اس گواہ پر بھروسہ کرسکتے ہیں، جس کو یہ یاد نہیں کہ 8 جنوری کو کوئی میٹنگ ہوئی تھی۔ گواہ یا تو دباؤ میں بیان دے رہا ہے یا وہ گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے'۔
واضح رہے کہ پولیس کے ذریعہ 100 صفحہ پر مشتمل چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ 8 جنوری 2020 کو شاہین باغ میں عمر خالد، خالد سیفی اور طاہر حسین نے مل کر دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کرنے لیے میٹنگ کی تھی۔
پیس نے مزید بتایا کہ چارج شیٹ میں پریشان کن حقائق بیان کیے گئے ہیں' جو بتاتا ہے کہ جس پولیس افسر نے اس کا ڈرافٹ تیار کیا ہے، وہ اس افسر کا تصور ہے'۔
حالیہ چارج شیٹ میں دہلی پولیس نے عمر خالد کے خلاف جے این یو میں سنہ 2016 میں لگائے گئے 'بھارت مخالف نعرہ' کا حوالہ دیا ہے، جس پر پیس نے عدالت میں کہا کہ "کیا اس طرح سے چارج شیٹ لکھی جاتی ہے؟ یہ کسی نیوز چینل کی اسکرپٹ لگتی ہے۔ پولیس اس چارج شیٹ میں سنہ 2016 کے جے این یو معاملے کو بھی شامل کر رہی ہے۔
پولیس کو یہ کہاں سے ملا کہ خالد نے 'بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے' کہا تھا۔ اس کے بعد پیس نے عدالت کو عمر کے خلاف 2016 میں درج ہونے والے بغاوت کے مقدمے سے آگاہ کرواتے ہوئے عدالت کو 2016 کی چارج شیٹ کی کاپی دی۔