پندرہ نومبر 2021 کی شام سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم آرائی میں دو عسکریت پسند اور دو عام شہری ہلاک ہوئے۔ عام شہریوں کی ہلاکت پر پولیس نے کہا کہ جو دو عام شہری ہلاک ہوئے ہیں ان میں ایک عسکریت پسندوں کا معاون بھی تھا، جب کہ ہلاک شخص کے اہل خانہ نے پولیس کے اس بیان کی سختی سے تردید کی ہے۔
ہلاک شدہ شہریوں کے لواحقین نے شہر کے ریزیڈنسی روڈ علاقے میں واقع پریس کالونی میں جمع ہوکر شدید احتجاج کیا۔ وہ انصاف کی مانگ کررہے تھے اور پولیس سے مطالبہ کررہے تھے کہ مقتول شہریوں کی لاشیں ان کے سپرد کی جائیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق ہلاک شدہ شہریوں کی شناخت الطاف احمد بٹ ساکن برزلہ اور ڈاکٹر مدثر گل ساکن راولپورہ کے بطور ہوئی ہے۔
مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاشیں بارہمولہ اور سونمرگ کے دور دراز علاقوں میں لیجاکر حکام کی جانب سے دفن کی جاتی ہیں تاکہ ان کے جنازوں پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع نہ ہوسکے۔ حکام کہتے ہیں کہ ایسا کووڈ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
الطاف احمد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام دکاندار ہیں اور اسے سیکیورٹی اہلکاروں نے ' انسانی ڈھال' کے طور استعمال کیا۔ ہلاک شدہ دکاندار کی بھتیجی صائمہ بٹ ایک انگریزی روزنامے کی مدیر رہ چکی ہیں۔ صائمہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ان کے چچا ایک عام شہری تھے۔ پولیس نے انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے ہلاک کیا۔ صائمہ نے مقتول کی لاش ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
وہیں انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے ایک دوسرے عام شہری ڈاکٹر مدثر کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ وہ ریئل اسٹیٹ ڈیلر تھے اور انکاؤنٹر سائٹ کے متصل ایک مکان بنوارہے تھے۔ ان کے لواحقین کے مطابق وہ کام کی نگرانی کے سلسلے میں اس وقت علاقے میں موجود تھے اور فائرنگ کی زد میں آگئے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بھی بتایا کہ ڈاکٹر گل ایک عام شہری تھے اور کراس فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔
حیدرپورہ انکائونٹر کے تعلق سے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کشمیر زون، وجے کمار نے بتایا کہ اس انکاؤنٹر میں چار افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک غیر ملکی عسکریت پسند، ایک مقامی معاون عسکریت پسند، اور مکان مالک سمیت دو شہری شامل ہیں۔
کمار نے کہا کہ 'انکاؤنٹر کے دوران ہلاک ہوئے دونوں مقامی افراد کے جسد خاکی کو امن و قانون برقرار رکھنے کے لیے لواحقین کے سپرد نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ انہیں ہندوارہ میں پولیس کی نگرانی میں دفن کیا گیا، جس میں ان کے اہل خانہ بھی موجود تھے‘۔
پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پی نے مدثر احمد کے حوالے سے کہا کہ وہ عسکریت پسندوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل کرنے کا کام کرتے تھے، ان کے مطابق، جمالٹہ، سرینگر میں بھی حیدر نامی عسکریت پسند کو لانے اور لے جانے کا کام بھی مدثر نے ہی انجام دیا۔
ہلاک شدگان کے اہل خانہ و رشتہ داروں نے پولیس کے سارے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انصاف کی مانگ کی ہے۔ وہیں وادی کے سیاست دانوں نے بھی معاملے کی غیر جانبدرانہ تحقیقات کی مانگ کی ہے۔
اس تعلق سے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'بے قصور عام شہریوں کو تصادم آرائی کے دوران ڈھال بنانا اور پھر اُن کو گولیوں کے تبادلے میں ہلاک کر کے عسکری معاون قرار دینا یہ حکومت کی اصولی کتاب (رول بک) کا حصہ بن گیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں محبوبہ نے معاملے کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا ’تاکہ سچ کو منظر عام پر لایا جا سکے اور بے تحاشا استثنیٰ(امپیونٹی) کا کلچر ختم کیا جا سکے'۔
ایک اور سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ حیدر پورہ تصادم کی غیر جانبدار اور قابل اعتماد تحقیقات ایک مطلق ضرورت بن گئی ہے۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ اس تصادم اور مارے گئے افراد کے بارے میں بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
وہیں سابق وزیر اور پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون کا کہنا تھا کہ 'حیدر پورہ تصادم کے حوالے سے جو دعوے منظر عام پر آرہے ہیں، اس کے پیش نظر ہم سب کو یہ جاننے کہ حق ہے کہ آخر ہوا کیا؟۔
لون نے کہا کہ تصادم کے بارے میں متضاد دعووں کے درمیان ہمیں (کشمیریوں کو) کم از کم اس بات کا حق ہے کہ ہمیں ایک غیر جانبدار ادارے کے ذریعے بتایا جائے کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔ لون نے ملتجیانہ لہجے میں لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے کہا کہ انہیں یہ موقعہ دستیاب ہوا ہے کہ وہ بتا سکیں کہ انسانی جانوں کی قدو و قیمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا تصادم نہ ہی پہلا ہے اور نہ ہی آخری ہوگا۔