تریپورہ پولیس نے ان دو خاتون صحافی پر "فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کے مقصد سے جھوٹی اور من گھڑت خبریں شائع کرنے اور نشر کرنے" کے الزام میں متعدد مقدمات درج کیے ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کی خاتون صحافیوں کو آسام پولیس نے آسام کے نیلم بازار میں اس وقت حراست میں لیا جب وہ پولیس کی پوچھ گچھ سے بچنے کے لیے تریپورہ چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
تریپورہ کے انسپکٹر جنرل (لا اینڈ آرڈر) ارندم ناتھ نے اے این آئی کو بتایا کہ دھرمن نگر سے ایک پولیس ٹیم انہیں واپس لانے کے لیے آسام کے نیلم بازار پہنچی ہے۔
اس سے قبل دونوں صحافیوں نے سلسلہ وار ٹویٹس میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں تریپورہ پولیس کی جانب سے تریپورہ تشدد کے حقائق کی اطلاع عام کرنے یا کسی کو دینے پر دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ان کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے آئی جی لاء اینڈ آرڈر نے کہا، "ان کے خلاف دو کیس درج ہیں، ایک اناکوٹی ضلع کے تحت کمار گھاٹ میں اور دوسرا گومتی ضلع کے ککربن پولیس اسٹیشن میں۔
ایک کاجل داس نے کمار گھاٹ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی اور کہا کہ دونوں صحافی ریاست کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اور دوسرا کاکربن میں ایک مقدمہ ان کی طرف سے جھوٹی معلومات پر مبنی ایک ویڈیو نشر کیے جانے کے بعد از خود درج کیا گیا تھا۔
کاکربن میں پولیس اہلکار نے بتایا کہ، رحمت علی کا ایک گھر جہاں باقاعدہ مذہبی عبادات کی جاتی تھی، گزشتہ 19 اکتوبر کو آگ لگنے سے جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ اور دونوں صحافی گزشتہ 11 نومبر کو وہاں گئے اور ایک چھوٹی سی ویڈیو بنائی جس میں انہوں نے قرآن کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تریپورہ تشدد: 68 ٹویٹر اکاؤنٹ کے خلاف یو اے پی اے کے تحت ایف آئی آر درج
آئی جی نے کہا "پولیس معاملے کی پہلی بار اطلاع ملنے کے بعد سے اس معاملے کی تحقیقات کر رہی تھی لیکن پولیس کو کمرے کے اندر جلے ہوئے قرآن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ویڈیو ویب پر اپ لوڈ ہونے کے بعد ہم نے ایک بار پھر گھر کے مالک رحمت علی سے تصدیق کی، جس نے ویڈیو میں بتائے گئے حقائق کی تردید کی۔ ہمارے ایس ڈی پی او نے سوموٹو ایف آئی آر لینے کے بعد ان دونوں سے رابطہ کیا۔ لیکن پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے، وہ اپنا راستہ بدل کر ریاست چھوڑنے کا انتخاب کیا۔
آئی جی نے مزید کہا پولیس کی ایک ٹیم اگرتلہ میں ان کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اگرتلہ ہوائی اڈے سے شام 5:20 بجے کی پرواز میں سوار ہو کر تریپورہ روانہ ہوں گے۔ لیکن، جب انہیں پورے معاملے اور ککرابن پولیس اسٹیشن کے مخصوص کیس کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا اور سڑک کے ذریعے شمالی تریپورہ کے راستے تریپورہ کی حدود کو عبور کیا۔ تاہم آسام پولیس کی مدد سے انہیں نیلم بازار میں رکھا گیا ہے۔ انہیں واپس لانے کے لیے دھرمن نگر پولیس اسٹیشن کی خواتین پولیس کی ایک ٹیم پہلے ہی موقع پر پہنچ گئی۔ انہیں ابتدائی پوچھ گچھ کے لیے کاکربن تھانے لے جایا جائے گ۔
وہیں ٹویٹر پر پوسٹ کردہ ویڈیو میں، حراست میں لی گئی سمردھی نے کہا "میری ساتھی سورنا جھا اور میں تریپورہ تشدد کی زمینی رپورٹنگ کے لیے تریپورہ آئے تھے۔ اناکوٹی ضلع جانے سے پہلے ہم پولیس اسٹیشن گئے تھے اور انہیں بتایا تھا کہ ہم یہاں رپورٹنگ کے مقصد سے تریپورہ میں ہیں اور پولیس سے سیکورٹی کی درخواست کی ہے۔پال بازار اور چوموہانی بازار کے علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران پولیس اہلکار دن بھر ہمارے ساتھ رہے۔ تقریباً 8.30 بجے ہمیں دھن نگر پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوتی ہے، جس میں ہماری نقل و حمل کی تفصیلات طلب کی جاتی ہیں۔ اپنے وکلاء سے مشورہ کرنے کے بعد، ہم نے تمام تفصیلات فراہم کیں۔"
خاتون نے مزید کہا، "صبح 5.30 بجے کے قریب، جب ہم ہوٹل سے چیک آؤٹ کر رہے تھے کہ ایک پولیس والا آیا اور کہا کہ ہمارے خلاف وی ایچ پی کے اراکین نے شکایت درج کروائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالا ہے۔ اور ہمیں CrPC کی دفعہ 41 (A) کے تحت نوٹس دیا ہے اور ہمیں 21 نومبر کو پولیس کے سامنے پیش ہونے کو کہا ہے۔
تریپورہ کے انسپکٹر جنرل کے مطابق ان کے خلاف فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالنے اور مجرمانہ سازش کے تحت الزامات لگائے گئے تھے۔
دونوں صحافیوں کو پولیس کی طرف سے حراست میں لینے کے بعد کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ بی جے پی صحافت کو قتل کرنے میں مصروف ہے لیکن جھوٹ کے سامنے سچ کب تک رک سکتا ہے۔
راہل گاندھی نے ہندی میں ایک ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے ہیش ٹیگ 'Tripura' اور 'NoFear' استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ "بی جے پی کا نظام صحافت کو مارنے میں مصروف ہے۔ لیکن جھوٹ کے سامنے سچ کب رکا ہے؟"۔