اردو

urdu

By

Published : Jan 18, 2022, 11:03 AM IST

ETV Bharat / bharat

Saadat Hasan Manto Death Anniversary:'منٹو کو جتنا پڑھا گیا اتنا ہی ان پر لکھا بھی گیا'

اردو افسانے کی دنیا میں سعادت حسن منٹو ایک مقبول و معروف نام ہے۔ ان کی پیدائش 11 مئی 1912 کو لُدھیانہ پنجاب میں ہوئی تھی جبکہ ان کا انتقال 18 جنوری 1955 کو Saadat Hasan Manto Death Anniversary پاکستان کے شہر لاہور میں ہوا۔

منٹو
منٹو

‏سعادت حسن منٹو کے والد قوم اور ذات کے کشمیری تھے۔ جو لدھیانہ کی کسی تحصیل میں ملازمت کرتے تھے۔

اگر سعادت حسن منٹو Urdu Writer Saadat Hasan manto کے بچپن کی بات کریں تو منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ تھا، جو سوتیلے بہن بھائیوں اور والد کی سختی سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا لیکن ان کی والدہ ان کی طرف دار تھیں۔

منٹو تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے لہٰذا ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ سنہ 1921 میں انھیں ایک اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گیا جبکہ میٹرک کے امتحان میں وہ تین مرتبہ فیل ہوئے چوتھی مرتبہ میں انھوں نے میٹرک پاس کیا۔

میٹرک کے بعد منٹو نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا۔

انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا اور پاکستان کی تشکیل کے بعد بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں وغیرہ شامل ہیں۔

سعادت حسن منٹو کے کئی افسانوی مجموعے، خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء ان کا انتقال ہوا۔

منٹو نے اپنی بیس برس کی ادبی زندگی میں دو سو سے زیادہ شاہکار کہانیاں تحریر کیں ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ منٹو نے افسانہ نگاری کے فن کو عروج پر پہنچایا ہے۔ اردو افسانہ نگاری میں جس قدر منٹو کو پڑھا گیا اتنا ہی منٹو پر لکھا بھی گیا ہے۔

اس کے علاوہ ان پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنی۔ ساتھ ہی ان کی کتابیں ہندی میں بھی کثرت کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ جس طرح اردو میں ان کے پڑھنے والے ہیں اسی طرح ہندی میں بھی ان کے قارئین کی اچھی خاصی تعداد ہے۔

آج منٹو کے یوم وفات پر سماج پر طنز کرتے ان کے کچھ حقیقت پر مبنی افسانوں کے ٹکڑے درج ذیل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏'اگر آپ اِن افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اُتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔!! میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لیے کہ یہ میرا کام نہیں، درزیوں کا کام ہے'۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت تو جذبوں کی امانت ہے فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے چند بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏میں نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہے جہاں اپنی خواہشات کا دبانا بہت بڑا ثواب خیال کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں سب سے زیادہ سچ شراب خانوں میں شراب پی کر بولا جاتا ہے اور سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بولا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏میرے شہر کے معززین کومیرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏کبھی کبھی سوچتا ہوں اپنی آنکھیں بند کر بھی لوں مگر اپنے ضمیر کا کیا کروں...؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏‎پاکستان عالم وجود میں آتے ہی آزاد ہوگیا تھا لیکن انسان ان دونوں مملکتوں میں غلام تھا، تعصب کا غلام، مذہبی جنونیت کا غلام، حیوانیت و بربریت کا غلام

مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ زندگی ایک آہ ہے جسے واہ میں لپیٹ کے پیش کیا گیا ہے_!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لیے ذرّہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خود کُشی کی دھمکی دے کر سنیما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے تک سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔ مگر وہ لڑکا میری توجہ کوضرور کھینچے گا جو ظاہر کر ے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ'۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ مجھے جانتے ہیں اس لیے تعارف کی ضرورت نہیں۔ پیش لفظ میں نے اس لیے نہیں لکھا کہ جو کچھ مجھے کہنا ہے میں نے اپنے مضامین میں کہہ دیا ہے۔ دیباچہ یا مقدمہ میں نے اس لیے کسی سے نہیں لکھوایا کیوں کہ میرے نزدیک یہ اس شہ بالے کی طرح مضحکہ خیز حد تک غیر ضروری اور غیر اہم ہے جو دولہا کے آگے یا پیچھے گھوڑے پر سجا بنا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار۔ یہی دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہے۔ جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے اس کے لیے ان سے اچھّا مقام اور کیا ہو سکتا ہے'۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئین نہیں ہو سکتی۔ میرے افسانوں کی ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کوجاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اُٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آرہا ہے۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اُچٹی ہوئی نیندیں منجمند ہوگئی ہیں میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں،اس کا چڑ چڑا پن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید پڑھیں:سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی 'بادشاہت کا خاتمہ' کی شوٹنگ مکمل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔۔۔یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ہندو مذہب مر گیا لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کر کے ہندووں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے۔ مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جا سکتے ہیں'۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details