مجتبیٰ فاروق نے لکچر ”انگریزی تراجم قرآن -ایک سروے“ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تراجم قرآن کے سلسلے میں مستشرقین نے کوئی ٹھوس اور معروف منہج اختیار نہیں کیا، بلکہ غیر علمی اور غیر منطقی طرز استدلال اختیار کیا۔ ہر جگہ تعصب اور جانب داری سے کام لیا گیا۔
علاقائی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ترجمہ قرآن کا کام بہت دشوار اور ہمت طلب ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جو غلطیاں مستشرقین نے کی ہیں وہ ہم سے سرزد نہ ہوں۔ ان خیالات کا اظہار پر وفیسر محمد اسحاق، پروفیسر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی، صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مانو نے بزم تحقیق، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکچر کے بعد اپنے خطاب میں کیا۔
مجتبیٰ فاروق (پی ایچ ڈی اسکالر، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مانو) نے آن لائن لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ گیارہویں اور بارہویں صدی میں یوروپ میں قرآن کریم کے ترجمے کا کام سب سے پہلے لاطینی زبان میں ہوا۔ لاطینی زبان اس وقت یوروپ میں غالب زبان کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کے علاوہ اس کو مذہبی درجہ بھی حاصل تھا۔ پھر سولہویں صدی میں انگریزی زبان میں ترجمہ قرآن کا آغاز ہوا اور سارے ترجمے اس وقت مستشرقین کررہے تھے۔
ان ترجموں میں اہم ترجمہ جارج سیل کا ہے جو انہوں نے 1734ء میں کیا۔ اس ترجمہ کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کا ترجمہ براہ راست عربی زبان سے کیا۔ اس ترجمے سے اہل یوروپ اور مغربی دنیا بڑی تعداد میں قرآن مجید سے متعارف ہوئی۔