بابری مسجد کی تاریخ: اگست 2019:
- اگست 2019: مرکزی حکومت کی جانب سے رام مندر ٹرسٹ کا اعلان کیا گیا اور 5 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے خود اپنے ہاتھوں سے مندر کی تعمیر کےلیے سنگ بنیاد رکھا اور پوجا کی۔Tracing the history of babri masjid
- 9 نومبر 2019: سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے اراضی کو ٹرسٹ کے حوالہ کردیا جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لیے زمین دی جائے۔
- 16 اکتوبر 2019: سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔یکم اگست کو ثالثی پینل نے رپورٹ پیش کی: 2 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثی پینل اس کیس کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس معاملہ کی روزانہ سماعت 6 اگست سے سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔
- اگست 2019: ثالثی پینل حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
- 8 مارچ 2019: سپریم کورٹ نے معاملے کو ثالثی کے لیے بھیجا۔ پینل سے 8 ہفتوں میں کارروائی ختم کرنے کو کہا گیا۔
- 29 اکتوبر 2018: سپریم کورٹ نے مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کو جنوری 2019 تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
- 27 ستمبر 2018: ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘ معاملہ کو بڑی بینچ کے سامنے بھیجنے سے انکار۔ عدالت نے 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سنایا تھا کہ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورت حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لئے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔
- فروری 2018: باقاعدگی سے سماعت کی اپیل خارج کردی گئی۔ 8 فروری کو سنی وقف بورڈ کی طرف سے سینئر وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے اپیل کو مسترد کردیا۔
- 16 نومبر 2017: ہندو گرو شری شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
- 19 اپریل 2017: سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کیس میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے متعدد رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا حکم دیا۔
- 21 مارچ 2017: سپریم کورٹ نے باہمی اتفاق سے تنازع کو حل کرنے کی بات کہی۔
- جولائی 2016: بابری مسجد کیس کے فریق میں سے ایک قدیم قانونی مقدمہ بازی کرنے والے ہاشم انصاری کا انتقال ہو گیا۔
- 9 مئی 2011: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی
- 30 ستمبر 2010: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے فیصلہ دیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ رام مندر میں، دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑا کے حوالے کر دیا۔
- 28 ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع کیس میں فیصلہ سنانے سے روکنے والی درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلے کی راہ ہموار کردی۔
- 26 جولائی 2010: معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
- جولائی 2009: لبرہن کمیشن نے اس کی تشکیل کے 17 سال بعد وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔
- ستمبر 2003: ایک عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ورغلانے والے سات ہندو رہنماؤں کو سماعت کے لیے بلایا جائے۔
- اگست 2003: بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں کھدائی کی۔ بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے دعویٰ کیا ہے کہ مندر کے باقیات مسجد کے نیچے پائے گئے ہیں۔ اس بارے میں مسلمانوں میں مختلف آراء تھیں اور اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔
- 5 مارچ 2003: الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
- اپریل 2002: ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بینچ نے ایودھیا میں متنازع مقام کی ملکیت سے متعلق سماعت شروع کردی۔
- جنوری 2002: وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دفتر میں ایودھیا کا محکمہ شروع کیا جس کا کام اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنا تھا۔
- 4 مئی 2001: خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
- 1994: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
- 16 دسمبر 1992: مسجد انہدام کے ذمہ دار حالات کی تحقیقات کے لیے لبرہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
- 6 دسمبر 1992: ہزاروں کار سیوکوں نے ایودھیا پہنچنے کے بعد بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ عارضی طور پر رام مندر بنائی گئی تاہم اس وقت وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔
- اکتوبر 1991: اترپردیش میں کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے ارد گرد 2.77 ایکڑ اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
- نومبر 1990: اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا، اس کے بعد بی جے پی نے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔
- 25 ستمبر 1990: بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اترپردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں متعدد مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے۔