اشفاق اللہ خان کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی دور حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے لیکن اشفاق اللہ کا رجحان کم عمری سے ہی مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر ملک کو آزاد کرانے کی طرف راغب رہا۔
20 برس کی عمر میں جب وہ رام پرساد بسمل سے ملے تو پوری طرح جنگ آزادی میں سرگرم ہوگئے۔
یہی سبب ہے کہ سنہ 1922 میں جب چوری چورا کا پرتشدد واقعہ پیش آیا تو گاندھی جی نے عدم تعاون تحریک کی خلافت دستبرداری اختیار کرنے کا اعلان کردیا اس دوران بہت سارے نوجوان بائیں بازو تحریک سے منسلک ہوگئے۔ ان میں سے ایک اشفاق اللہ خان تھے جنھیں اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ بہت جلد بھارت آزاد ہونے والا ہے اور انہوں نے انقلابیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور رام پرساد بسمل سے دوستی کرلی۔ رام پرساد بسمل بھی ایک انقلابی مزاج کی حامل شخصیت تھے۔
لوٹ کے دوران اشفاق اللہ خان نے چھینی اور ہتھوڑے سے تجوری کو تنہا توڑا
اس دوران پرجوش انقلابیوں میں بے چینی کا عالم پیدا ہوگیا اور رام پرساد بسمل و دوسرے کئی مجاہدین کے ساتھ اشفاق اللہ خان نے بھی ملک کی آزادی کے لیے تشدد کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے لیے انہیں اسلحوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس لیے انھوں نے 8 اگست 1925 کو خفیہ نشست کی اور اگلے ہی دن کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی سہارنپور-لکھنؤ پیسنجر ٹرین کو لوٹ لیا۔
لوٹ کے دوران اشفاق اللہ خان نے چھینی اور ہتھوڑے سے تجوری کو تنہا توڑا۔ یہ واقعہ تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج کیا گیا۔ یہ انگریزی حکومت کے سینے پر سانپ لوٹنے جیسا ثابت ہوا۔اس ڈکیتی کا مقصد بھارتیوں سے انگریزوں نے جو روپیہ، پیسہ دیگر قیمتی چیزیں چھینی تھی اسے واپس لینا اور ان روپیوں سے ہتھیار، گولا بارود لے کر ان کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ اس کارنامہ میں ان کے ساتھ رام پرساد بسمل، راجندر لاہیری، ٹھاکر روشن سنگھ، سچندرا بخشی، چندر شیکھر آزاد، کیشب چکر ویدی، بنواری لال، مکونڈی لال، منما گپتا وغیرہ شامل تھے۔
اس کے بعد انگریز حکومت نے ان کے نام پھانسی کے فرمان جاری کردیے۔ فیض آباد میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، راجندرا لاہیری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو پھانسی کی سزا ہوئی۔