حیدرآباد (محمد شاداب عالم): ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد بھارت میں اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے کے پس منظر میں کیا گیا۔ کانفرنس میں ملک بھر سے عملی صحافت اور میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے شرکت کی، جنہوں نے اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ International Conference on Urdu Journalism
خطبہ استقبالیہ میں پرفیسر احتشام الحق نے بتایا کہ 27 مارچ 1822ء کو اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما شہر کولکاتا سے جاری ہوا تھا۔ انہوں نے کہاکہ آج کل ایک تاثر عام ہےکہ اردو صحافت کو مسلمانوں کا بتایاجاتا ہے، جو بالکل غلط ہے، جب کہ اردو اخبار کے پہلے ناشر اور ایڈیٹر دونوں غیر مسلم تھے۔ جام جہاں ہری ہر دت اور مدیر منشی سدا سکھ رائے تھے۔
اس موقع پر کلیدی خطبہ دیتے ہوئے اردو کے سینیئر صحافی حسن کمال نے کہا کہ فنڈنگ، انفراسٹرکچر، عملہ اور خاص طور پر ایک چھوٹے سے اردو اخبار کو چلانے کے لیے اشتہارات پر انحصار کی ضرورت اکثر اردو اخبارات شروع کرنے کے خواہاں کاروباری افراد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
معرف صحافی حسن کمال نے کہا کہ اردو کی دو سو سالہ صحافت پُر تابناک ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی زبان میں اخبار نکالنا اور چلانا آسان نہیں، ایک اخبار کو چلانے کے لیے سالانہ تقریباً کروڑوں کا خرچ آتا ہے۔ جو بغیر کسی امداد یا اشتہار کے بغیر ممکن ہے۔ اسی لیے ایک وقت تک اردو زبان میں صحافتی انجام دینا مشکل امر رہا۔ لیکن مستقبل روشن اس معنی پر ہے کہ یہ دور ڈیجیٹل کا دور ہے جہاں محدود اثاثے کے اردو زبان میں صحافتی فرائض انجام دیے جاسکتے ہیں۔