اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

ٹیم انڈیا، مخالف حالات کا جواب حصولیابی سے دے رہی ہے

بھارت کی ٹیکہ کاری مہم اس بات کی مثال ہے کہ اگر ہمارے ملک کے شہری اور حکومت 'جن بھاگیداری' کے جذبہ کے ساتھ کسی مشترکہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے متحد ہو جائیں، تو اسے آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ٹیم انڈیا ،مخالف حالات کا جواب حصولیابی سے دے رہی ہے
ٹیم انڈیا ،مخالف حالات کا جواب حصولیابی سے دے رہی ہے

By

Published : Oct 21, 2021, 10:24 PM IST

نریندر مودی، وزیر اعظم، ہند

بھارت نے 21 اکتوبر، 2021 کو 100 کروڑ شہریوں کی ٹیکہ کاری کا ہدف مکمل کر لیا، جب کہ اس ٹیکہ کاری مہم کو شروع ہوئے ابھی صرف 9 مہینے ہی ہوئے ہیں۔ کووڈ-19 سے نمٹنے کا یہ ایک شاندار سفر رہا ہے، خاص کر ایسے وقت میں جب ہمارے ذہن میں سال 2020 کے ابتدائی دنوں کی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ انسانوں کو 100 سال کے بعد اس قسم کے وبائی مرض کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور کسی کو اس وائرس کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ کیسے غیر متوقع طور پر ہمیں اچانک ایسی حالت کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ ایک نامعلوم اور نظر نہ آنے والا دشمن تیزی سے اپنا حلیہ بدلتا جا رہا تھا۔

دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم کی بدولت یہ سفر پریشانی سے یقین دہانی میں تبدیل ہو چکا ہے اور ہمارا ملک مضبوط بن کر ابھرا ہے۔

یہ واقعی میں بھاگیرتھ کوشش تھی جس میں معاشرہ کے کئی حصے شامل رہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی اس کوشش کا اندازہ لگانے کے لیے، تصور کریں کہ ایک ٹیکہ لگانے میں حفظانِ صحت کے کارکن کو صرف 2 منٹ لگے۔ اس رفتار سے آج کے ہدف کو مکمل کرنے میں تقریباً 41 لاکھ افرادی دن یا تقریباً 11 ہزار افرادی سال لگے۔

کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے اور رفتار اور پیمانے کو برقرار رکھنے کے لیے، اس میں شامل تمام متعلقین کا اعتماد انتہائی ضروری ہے۔ اس مہم کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ عدم اعتماد اور ڈر کا ماحول پیدا کرنے کی متعدد کوششوں کے باوجود لوگوں نے ٹیکہ اور اسے لگانے میں اپنائے گئے طریقے پر بھروسہ کیا۔

ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو صرف غیر ملکی برانڈ پر اعتماد کرتے ہیں، بھلے ہی وہ روزمرہ کی ضروریات ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن، جب کووڈ-19 ویکسین جیسی اہم چیز کی بات سامنے آئی، تو بھارت کے لوگوں نے متفقہ طور پر ’میڈ ان انڈیا‘ ٹیکوں پر بھروسہ کیا۔ نظریات میں آنے والی یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔

بھارت کی ٹیکہ کاری مہم اس بات کی مثال ہے کہ اگر ہمارے ملک کے شہری اور حکومت ’جن بھاگیداری‘ کے جذبہ کے ساتھ کسی مشترکہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے متحد ہو جائیں، تو اسے آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بھارت نے جب اپنا ٹیکہ کاری کا پروگرام شروع کیا تھا، تو کئی لوگوں نے 130 کروڑ ہندوستانیوں کی صلاحیتوں پر شک ظاہر کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ اسے پورا کرنے میں بھارت کو 4-3 سال لگیں گے۔ دوسرے لوگوں نے کہا تھا کہ لوگ ٹیکہ لگانے کے لیے آگے نہیں آئیں گے۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ ٹیکہ کاری کے عمل میں بڑے پیمانے پر بد انتظامی اور افراتفری ہوگی۔ کچھ نے تو یہاں تک کہا تھا کہ بھارت سپلائی چین کا انتظام کرنے میں ناکام ہو جائے گا۔ لیکن جنتا کرفیو اور اس کے بعد لاک ڈاؤن کی طرح ہی، بھارت کے لوگوں نے کرکے دکھا دیا کہ اگر انہیں با اعتماد پارٹنر بنایا جائے، تو نتائج کتنے شاندار ہو سکتے ہیں۔

اگر ہر کوئی اسے اپنا کام سمجھ کر کرنے لگے، تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ہمارے حفظان صحت کے کارکنان نے لوگوں کو لگانے کے لیے مشکل ترین علاقوں میں پہاڑوں اور ندیوں کو پار کیا اور ان لوگوں تک یہ ٹیکہ پہنچایا۔ ہمارے نوجوان، سماجی کارکن، حفظان صحت کے کارکن، سماجی اور مذہبی لیڈران، سبھی تعریف کے قابل ہیں کہ ان کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے بھارت کے لوگوں نے ٹیکہ لگانے میں کم از کم ہچکچاہٹ دکھائی۔

مختلف مفادات والے گروپس کی طرف سے اس بات کے لیے بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ ٹیکہ کاری میں انہیں ترجیح دی جائے۔ لیکن حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہماری دوسری اسکیموں کی طرح ہی، ٹیکہ کاری مہم میں بھی کوئی وی آئی پی کلچر نہیں ہوگا۔

سال 2020 کے ابتدائی دنوں میں، جب کووڈ-19 پوری دنیا میں تباہی مچا رہا تھا، ہمارے لیے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس وبائی مرض کا مقابلہ آخر کار ٹیکہ کی مدد سے ہی ہو پائے گا۔ اس لیے ہم نے جلد ہی اس کی تیاری شروع کر دی۔ ہم نے ماہرین کے گروپ بنائے اور اپریل 2020 سے ہی اس کا خاکہ تیار کرنا شروع کر دیا۔

ابھی تک، دنیا کے کچھ ہی ممالک نے اپنا ٹیکہ تیار کیا ہے۔180 سے زیادہ ممالک محدود ٹیکہ بنانے والوں پر منحصر ہیں اور درجنوں ممالک کو ابھی بھی ٹیکہ کی سپلائی کا انتظار ہے، جب کہ بھارت نے 100 کروڑ خوراک کی حد پار کر لی ہے! تصور کریں کہ اگر بھارت کے پاس خود اپنا ٹیکہ نہیں ہوتا تب کیا حالت ہوتی۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے بھارت مناسب مقدار میں ٹیکہ کہاں سے لاتا اور اس میں کتنے سال لگتے؟ اس کے لیے ہندوستانی سائنسدانوں اور صنعت کاروں کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے کہ وہ اس کے لیے سامنے آئے۔ اُنہی کی صلاحیت اور کڑی محنت کی وجہ سے ٹیکہ کے معاملے میں بھارت آج ’آتم نربھر‘ (خود کفیل) ہے۔ ہمارے ٹیکہ بنانے والوں نے اتنی بڑی آبادی کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اپنی پیداوار میں اضافہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔

ایک ایسے ملک میں، جہاں حکومتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترقی کی راہ میں روڑہ ہیں، ہماری حکومت نے ترقی کی اس رفتار کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔ حکومت نے پہلے دن سے ہی ٹیکہ بنانے والوں کے ساتھ پارٹنرشپ کی اور انہیں ادارہ جاتی امداد، سائنسی تحقیق، فنڈنگ، اور تیز رفتار قانونی کارروائیوں کی شکل میں تعاون فراہم کیا۔ ہمارے ’مکمل حکومت‘ کے نظریہ کے نتیجہ میں حکومت کی تمام وزارتوں نے باہم متحد ہو کر ٹیکہ بنانے والوں کو سہولیات فراہم کیں اور رکاوٹوں کو دور کیا۔

بھارت جیسے بڑے ملک میں صرف پیداوار ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ توجہ اس بات پر بھی ہونی چاہیے کہ آخری منزل تک یہ پیداوار پہنچ جائے اور اس کے لیے تمام قسم کی لاجسٹک کا انتظام ہو۔ اس میں شامل چیلنج کو سمجھنے کے لیے، ذرا ویکسین کی ایک شیشی کے سفر کا تصور کریں۔ پونہ یا حیدرآباد کے کسی پلانٹ سے اس شیشی کو کسی بھی ریاست کے مرکز میں بھیجا جاتا ہے، جہاں سے اسے ضلع مرکز تک پہنچایا جاتا ہے۔ پھر وہاں سے، یہ ٹیکہ کاری مرکز تک لے جائی جاتی ہے۔ اس پورے عمل میں طیاروں اور ٹرینوں کے ذریعے ہزاروں چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اس پورے سفر میں، ایک مخصوص حد تک درجہ حرارت کو برقرار رکھنا پڑتا ہے، جس کی مرکزی طور پر نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے، ایک لاکھ کولڈ چین آلات کا استعمال کیا گیا۔ ریاستوں کو ڈیلیوری کی مدت کے بارے میں پہلے سے مطلع کر دیا گیا تھا، تاکہ وہ اپنی مہم کو بہتر طریقے سے چلا سکیں اور ویکسین ان کے پاس پہلے سے طے شدہ وقت پر پہنچ جائے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ممکن ہوا ہے۔

ان تمام کوششوں کے لیے CoWIN پلیٹ فارم پر بہترین ٹیکنالوجی موجود تھی، جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ٹیکہ کاری کی مہم یکساں طور پر چل رہی ہے، بڑے پیمانے پر جاری ہے، اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے، اور یہ شفاف ہے۔ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جانبداری کرنے یا کود کر قطار سے آگے پہنچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس نے یہ بھی یقینی بنایا کہ غریب مزدور پہلی خوراک اپنے گاؤں میں اور متعینہ مدت کے بعد دوسری خوراک اس شہر میں حاصل کر سکتا ہے جہاں پر وہ کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، شفافیت میں اضافہ کرنے کے لیے، حقیقی وقت میں ہی کیو آر کوڈ والا سرٹیفکیٹ بھی فراہم کیا گیا جس کی توثیق کو یقینی بنایا گیا۔ بھارت ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں اس قسم کی کوششوں کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

سال 2015 میں یوم آزادی کے موقع پر دی گئی اپنی تقریر میں، میں نے کہا تھا کہ ہمارا ملک ’ٹیم انڈیا‘ کی وجہ سے آگے بڑھ رہا ہے اور یہ ’ٹیم انڈیا‘ ہمارے 130 کروڑ لوگوں کی ایک بڑی ٹیم ہے۔ لوگوں کی حصہ داری جمہوریت کی سب سے بڑی مضبوطی ہوتی ہے۔ اگر ہم ملک کو 130 کروڑ ہندوستانیوں کی حصہ داری سے چلائیں، تو ہمارا ملک ہر لمحے 130 کروڑ قدم آگے بڑھے گا۔ ہماری ٹیکہ کاری مہم نے ایک بار پھر اس ’ٹیم انڈیا‘ کی طاقت کو دکھا دیا ہے۔ ٹیکہ کاری مہم میں بھارت کی کامیابی نے پوری دنیا کو یہ بھی دکھایا ہے کہ ’جمہوریت اپنا کام کر سکتی ہے‘۔

مزید پڑھیں:طبی شعبہ کو مضبوطی فراہم کرنے میں نجی شعبہ تعاون کرے: مودی

میں پر امید ہوں کہ دنیا کی اس سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم میں حاصل ہونے والی کامیابی ہمارے نوجوانوں، ہمارے انوویٹر اور حکومت کی تمام سطحوں کو پبلک سروس ڈیلیوری کے نئے بینچ مارک طے کرنے کا حوصلہ عطا کرے گی، جو کہ نہ صرف ہمارے ملک کے لیے، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل بنے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details