آئین ہند کی دفعہ 355 کے مطابق ہر ریاست کو خارجی جارحیت اور داخلی خلفشار سے محفوظ رکھنا اور ہر ریاست کی سرکار کا آئینِ ہند کے مطابق چلنا یقینی بنانا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ایک ایسے وقت پر جب ریاستیں کووِڈ کی دوسری لہر کے نتیجے میں متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اموات کی وجہ سے مشکلات سے جوجھ رہی ہیں، مرکزی سرکار کیا کر رہی ہے؟ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے 741 اضلاع میں 301 مقامات پر کووِڈ متاثرین کی تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔
وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ بلیٹن کے مطابق وبا آسام، مغربی بنگال، اُڑیسہ، بہار اور جہارکھنڈ کی ریاستوں میں پھیل رہی ہے۔ سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرناٹکا میں 30 کووِڈ متاثرین کو اسپتال کے بستروں کے میسر ہوجانے کا انتطار ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز کے اس موقف کو ماننے سے انکار کیا ہے کہ وہ ریاستوں کو اسی طریقہ کار کے مطابق آکسیجن فراہم کررہا ہے، جس کا تعین نیتی آیوگ کے رُکن وی کے پال کی سربراہی والی کمیٹی نے کیا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے از خود 12 ممبران پر مشتمل نیشنل ٹاسک فور قائم کیا ہے۔ اگرچہ مرکز نے مارچ میں 21 ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کیا تھا، لیکن سپریم کورٹ کے اقدام کے نتیجے میں اب یہ محض ایک نمائشی ٹاسک فورس بن کر رہ گیا۔ یہ ٹاسک فورس کس قدر بے اثر ثابت ہوا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ملک میں کووِڈ متاثرین کی تعداد روزانہ 500 ہوا کرتی تھی، تب ملک گیر لاک ڈاون لگایا گیا تھا، لیکن آج جب روازنہ متاثرین کے چار لاکھ کیس سامنے آرہے ہیں، حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ایک سپر ماڈل کمیٹی گزشہ مئی کو قائم کی گئی تھی تاکہ وائرس کی شدت کا اندازہ ریاضی طریقہ کار سے لگایا جا سکے۔ لیکن اس کمیٹی کی جانب سے وبا کی دسری لہر کی آمد کے حوالے سے کی گئی پیش گوئی پر مرکز نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب جبکہ انسانوں کی غلطی کے نتیجے میں ملک ایک المیہ سے دوچار ہوگیا ہے، صرف سپریم کورٹ ہی صیح رہنمائی کرسکتا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے خود جنوری میں اعلان کیا تھا کہ بھارت نے کورونا کے خلاف جنگ کو عوامی تحریک میں بدل دیا اور اس کی وجہ سے اب بھارت اُن ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جو اپنے عوام کی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔