عدالت نے مرکز سے پوچھا ہے کہ ان کے پاس کووڈ - 19 سے نمٹنے کے لیے کیا نیشنل پلان ہے۔
سپریم کورٹ نے چار اہم مسائل پر مرکزی حکومت سے نیشنل پلان مانگا ہے۔ اس میں پہلا- آکسیجن سپلائی، دوسرا- دواؤں کی سپلائی، تیسرا - ویکسین دینے کا طریقہ اور چوتھا ۔ لاک ڈاؤن کرنے کا اختیار ریاستی حکومت کو ہو، عدالت کو نہیں۔ اب معاملے کی اگلی سماعت 23 اپریل یعنی کل ہوگی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں چھ الگ الگ ہائی کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ اس لیے 'کنفیوژن اور ڈائیورژن' کی حالت ہے۔ دہلی، بامبے، سکم، کلکتہ، الہ آباد اور اوڈیشہ - 6 ہائی کورٹ میں کورونا کی صورت حال پر سماعت چل رہی ہے۔ سوپریم کورٹ کی بینچ نے کہا کہ 'یہ کنفیوژن اور ڈائیورژن' پیدا کر رہا ہے، ایک ہائی کورٹ کو لگتا ہے کہ یہ ان کے دائرۂ کار میں آتا ہے، دوسرے کو لگتا ہے کہ ان کے۔۔۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے لاک ڈاؤن والے حکم کا ذکر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہائی کورٹ ایسے حکم نامے صادر کرے۔ سی جے آئی ایس اے بوبڈے نے کہا کہ 'ہم ریاستی حکومتوں کے پاس لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کی طاقت رکھنا چاہتے ہیں، عدلیہ کی جانب سے اس کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔'
وہیں سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے یہ بھی پوچھا کہ کیا وہ ہائی کورٹ میں کارروائی پر روک لکائے گی۔ اس پر عدالت نے کہا کہ حکومت اپنے منصوبوں کو ہائی کورٹ میں پیش کر سکتی ہے، اگر آپ کے پاس آکسیجن کے لیے ایک قومی منصوبہ ہے تو یقیناً ہائی کورٹ اسے دیکھے گا۔'