نئی دہلی: تشدد زدہ منی پور پر منگل کے روز بھی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے منی پور تشدد کی آزادانہ جانچ کا حکم دینے کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے منگل کو کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں مئی کے شروع سے لیکر جولائی کے آخر تک ریاست میں امن و امان اور آئینی مشینری مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے منی پور کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کو 7 اگست کو عدالت میں حاضر ہونے کی ہدایت دی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے متعلقہ فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد اس طرح کے کئی سخت مشاہدات کئے۔ قبل از تفتیشی عمل کی غیر جانبداری پر زور دیتے ہوئے بنچ نے ریاست کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کو پیر کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا تاکہ ریاست میں تشدد کے واقعات کی تفصیلات ذاتی طور پر پیش کی جا سکیں اور ایک بار پھر کہا کہ اس کے لئے سابق ججوں پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل کر سکتے ہیں۔
بنچ نے کہا کہ ہم تمام ایف آئی آر سی بی آئی کے حوالے نہیں کر سکتے۔ مقدمات کی نگرانی کے لیے کچھ میکانزم قائم کرنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے ریاستی پولیس کی تحقیقات کو سست اور ڈھیلا پایا اور کہا کہ جرم کے وقوع پذیر ہونے اور متاثرین کے بیانات کو دوبارہ ریکارڈ کرنے کے درمیان ایک وقفہ ہے۔ بنچ معاوضے کے تعین سمیت اس کی چھوٹ پر فیصلہ کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے مردہ خانے میں رکھی لاشوں کی شناخت قائم کرنے کی کوششوں کے بارے میں بھی معلومات طلب کیں۔
بنچ نے یہ بھی کہا کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں کتنے اسکول ہیں۔ ان میں کتنے طلباء ہیں؟ کیا وہاں کے حالات تعلیم کے لیے سازگار ہیں؟ اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے کہا کہ صورتحال بہت پریشان کن ہے۔ ہم اس قدر نازک صورتحال میں ہیں کہ تھوڑا سا صبر حالات کو سدھارنے میں مدد دے گا۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ قتل، عصمت دری، آتش زنی، عبادت گاہوں کی تباہی وغیرہ کے الگ الگ اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کرے۔
اس سے قبل انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں کے خلاف سپریم کورٹ نے کہا کہ شمال مشرقی ریاست مہلک نسلی تشدد کی زد میں ہے اور مئی کے شروع سے لے کر جولائی کے آخر تک وہاں امن و امان اور آئینی مشینری مکمل طور سے تباہ ہوچکی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر قانون عوام کو تحفظ دینے سے قاصر ہے تو ان کے پاس بچا ہی کیا ہے؟ اس نے ریاستی حکومت سے ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں بھی سوال کیا جنہوں نے وائرل ویڈیو میں نظر آنے والی خواتین کو بھیڑ کے حوالے کیا۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ کے سامنے کہا کہ حکومت خواتین کے خلاف جرائم کے سلسلے میں 11 ایف آئی آر کو سی بی آئی کو منتقل کرنے کی تجویز رکھتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منی پور میں کوئی امن و امان باقی نہیں ہے اور یہ بالکل واضح ہے کہ ریاستی پولیس تفتیش کرنے سے قاصر ہے اور وہ امن و امان پر مکمل کنٹرول کھو چکی ہے اور اگر قانون لوگوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو ماہ سے حالات اتنے خراب تھے کہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے حالات سازگار نہیں تھے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایف آئی آر بھی درج نہیں کر سکے، پولیس گرفتار نہیں کر سکی۔ تشار مہتا نے کہا کہ جیسے ہی مرکزی حکومت کو صورتحال کا احساس ہوا، کیس سی بی آئی کو منتقل کر دیا گیا۔اس پر چیف جسٹس نے مہتا سے سوال کیا کہ اگر 50 (کیس) سی بی آئی کے پاس جائیں تو 5500 کیسز کا کیا ہوگا؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستی پولیس تفتیش کرنے سے قاصر ہے اور وہاں کوئی امن و امان باقی نہیں ہے۔