شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کو ایک برس سے زیادہ وقت گزر چکا ہے تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ اس کے پیچھے کن لوگوں کا ہاتھ ہے حالانکہ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سبرامنیم پرساد نے ایک کیس کی سماعت کے دوران اس بات کو قبول کیا گیا ہے کہ یہ فسادات ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کرائے گئے ہیں۔
عدالت کے اس ریمارکس پر معروف وکیل محمود پراچہ نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کو شروع سے ہی کہہ رہے ہیں کہ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات ایک سازش کے تحت کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو تحقیقات کا کام پولیس کے ذریعے ہونا چاہئے تھا وہ ہم وکلاء کو کرنا پڑرہا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس افسران اپنے سیاسی آقاؤں کے لیے عدالت میں پیش نہیں کررہے بلکہ وہ تمام فوٹیج ہمیں مہیا کرانے پڑرہے ہیں۔
محمود پراچہ نے مزید کہا کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران عدلیہ جتنی کمزور ہوئی ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے کہ کس طرح سے عدالت عظمیٰ کے 4 ججز نے پریس کانفرنس کرکے اسے مضبوط کرنے کی اپیل کی تھی، تاہم اس کے باوجود محمود پراچہ کا کہنا ہے کہ عدلیہ کمزور تو ہوئی ہے لیکن ابھی بھی انصاف باقی ہے اس لیے ہمیں ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں ہے اور عدلیہ پر بھروسہ کرتے ہوئے انصاف کی جنگ لڑتے رہنا ہے اس میں وقت تو ضرور لگ سکتا ہے لیکن کامیابی ہمیں ہی ملے گی۔
پراچہ نے کہا کہ ان کے آفس کے ذریعے متعدد ایسے کیسز کی پیروی کی جارہی ہے جس میں عدالت نے پولیس کی تحقیقات پر تنقید کرتے ہوئے ان کی سرزنش کی ہے۔