خرطوم (سوڈان): سوڈان کی سکیورٹی فورسز نے گزشتہ ماہ کی فوجی بغاوت کے بعد جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف تازہ ترین کریک ڈاؤن میں اتوار کو دارالحکومت خرطوم میں مظاہرین کو منتشر کیا اور 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
سوڈانی فوج نے 25 اکتوبر کو عبوری حکومت کو تحلیل کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور درجنوں عہدیداروں اور سیاست دانوں کو گرفتار کر لیا۔ اس بغاوت کو بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور خرطوم سمیت ملک کے دیگر مقامات پر زبردست مظاہرے ہوئے۔
سوڈان میں دو سال قبل عمر البشیر کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ملک میں سویلین اور فوجی عبوری حکومت مل کر کام کر رہی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ اس سال اقتدار کی منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے اور ملک میں مکمل جمہوری نظام قائم کیا جا سکے گا، لیکن اس سے قبل فوج نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔
اس کے بعد سے جمہوریت کے حامی اور فوج حمایتی کارکنان سڑکوں پر مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔ عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج پرتشدد کاروائی بھی کر رہی ہے، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی مزمت کی ہے اور ملک میں جمہوری حکومت کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔
البشیر کے خلاف بغاوت کی قیادت کرنے والے سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن کے مطابق اساتذہ اور تعلیمی کارکنوں نے خرطوم کے ضلع بحری میں وزارت تعلیم کے باہر فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔
وکیل معیز ہدرا نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور کم از کم 113 مظاہرین کو گرفتار کیا جن میں زیادہ تر اساتذہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ خرطوم میں دیگر جگہوں پر بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
مقامی حکام نے بغاوت کے بعد پہلی بار دارالحکومت میں اسکولوں کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اتوار، سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن کی طرف سے بلائے گئے ملک گیر ہڑتالوں میں سے پہلا دن تھا، جس نے اس وقت تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا ہے، جب تک کہ ایک مکمل سویلین حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک ویڈیو صحافی کے مطابق خرطوم میں کئی دکانیں اور کاروبار کھلے ہوئے دیکھے گئے۔
ثالثی کی کوششوں کی جانکاری رکھنے والے ایک فوجی عہدیدار کے مطابق تازہ کریک ڈاؤن اس وقت ہوا ہے جب فوجی اور سویلین رہنماؤں کے درمیان ثالثی کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔