اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

بھارت میں لسانی قوم پرستی کا بڑھتا رجحان خطرناک - Verghese P Abraham

ذیلی قومیت اور لسانی شناخت کی حفاظت اہم تو ہے ہی لیکن قومی ریاست کا تحفظ اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کے شعبہ انگلش کے اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر ورگیس پی ابراہم نے درج ذیل تجزیاتی مضمون لکھا ہے۔

Maharashtra Ekikaran Samiti
Maharashtra Ekikaran Samiti

By

Published : Jan 21, 2021, 7:14 AM IST

ملک میں معاشرتی تنوع کا فروغ ہی اصل میں قومی اتحاد کی علامت ہے۔ لسانیت کی بنیاد پر ریاستوں کا نظم دراصل ان ریاستوں کی شناخت کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں نیشن اسٹیٹ کے وسیع بیانیہ سے ہم آہنگ کرنا تھا۔

تاہم ان ریاستوں کی حد بندی کے بعد بعض علاقوں کی ملی جلی آبادیاں خود کو لسانی بنیادوں پر متعلقہ ریاستوں سے ہم آہنگ نہیں پاتی ہیں۔ ان میں سے بعض آبادیاں اُن ملحقہ ریاستوں میں انضمام کی متمنی ہیں جن کے ساتھ وہ خود کو لسانی طور پر ہم آہنگ سمجھتی ہیں یا پھر اس طرح کے علاقوں میں لوگ ریاستی انتظامیہ سے اُنہیں لسانی اقلیت کے نام پر ریزرویشن دینے کی مانگ کررہے ہیں۔

تاہم اب ایک نیا رجحان پیدا ہورہا ہے جو نہ صرف ریاستوں کی تنظیم سازی کی خامیوں کو اُبھار سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں بین الریاستی امن و امان اور بھارتی قومیت کی بنیادیوں کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

بیلگاوی ضلع کو مہاراشٹر میں ضم کرنے کے حوالے سے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے کے ٹویٹ نے کرناٹک کی دُکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ اس ضلع پر دونوں ریاستوں کا دیرینہ دعویٰ ہے۔

بیلگاوی ضلع کی مراٹھی آبادی میں اس حوالے سے ایک سیاسی تحریک بھی جاری ہے۔ یہ تحریک مہاراشٹر ایکی کرن سمیتی ( ایم ای ایس) اس ضلع کو مہاراشٹرا میں ضم کرنے کے لیے چلارہی ہے جبکہ دوسری جانب کرناٹک نے بیلگاوی شہر کو نہ صرف ریاست کے دوسرے دارالحکومت کا درجہ دے رکھا ہے بلکہ یہاں دوسری اسمبلی عمارت بھی تعمیر کر رکھی ہے تاکہ اس خطے پر ریاست کا دعویٰ مضبوط رہے۔

ہر مرتبہ سٹی کارپوریشن انتخابات کے موقع پر مہاراشٹر ایکی کرن سمیتی (ایم ای ایس) اور کرناٹک کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان ٹکراؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس معاملے میں اُدھو ٹھاکرے کے ٹویٹ نے ہلچل مچادی ہے جبکہ شیو سینا اس ضلع کو مہاراشٹر میں ضم کرنے کے لیے ایک موثر تحریک چلانے کی تیاری کررہی ہے۔ شیو سینا لسانی برتری اور ہندو توا کی اساس پر سیاسی تحریک بپا کررہی ہے۔

دوسری جانب کرناٹک بھی اس ضلع میں اپنی لسانی موجودگی کی بنیاد پر اپنا دعویٰ مضبوط کررہا ہے۔

کرناٹک ریاست کی حد بندی میں شامل بیلگاوی ضلع اس ریاست کی ایک علامت ہے جسے اب خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر کبھی مہاراشٹر کے مطالبے پر غور کرنا شروع کیا گیا تو اس کے نتیجے میں کس قدر سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

آج ملک میں جو ریاستیں موجود ہیں اُنہیں ملحقہ علاقائی تنظیموں، نسلی، مذہبی یا لسانی آبادیوں کو ملحوظ نظر رکھ کر تشکیل نہیں دیا گیا تھا۔ اگر بیلگاوی ضلع پر مہاراشٹر کا دعویٰ تسلیم کیا گیا تو اس ریاست کا اگلا دعویٰ گوا کی پوری ریاست پر ہوگا۔ اسی طرح کیرالا کا کاسر گوڈ، جو مدراس پریسڈینسی یا مدراس صوبے کے کینرا ضلع کا حصہ رہا ہے، پر کرناٹک کے دعوے کو بھی ماننا پڑے گا۔

اسی طرح کنیا کماری، مرتھاندم اور ناگرکوئل جیسے علاقے تاریخی لحاظ سے سابق رجواڑے تراون کور کا حصہ رہے ہیں۔ کیرالا بھی تاریخی بنیادوں پر اِن علاقوں پر اپنا حق جتا سکتا ہے۔ اسی طرح ملک کی بقیہ ریاستوں میں بھی اس نوعیت کے مطالبات سر اٹھانا شروع کردیں گے، جو انڈین نیشن کو منتشر کرنے کا ایک سبب بن سکتا ہے۔

جن اصولوں کی بنیاد پر بھارت کو بطور ایک نیشن اسٹیٹ تصور کیا گیا تھا، اُنہی کو دیکھ کر رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ماہرِ سیاسیات بین ڈیکٹ اندر سن نے کہا ہے کہ اقوام کا تصور برادریوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اُن کے نظریات کی رو سے دیکھیں تو بھارت کو بھی اس کے قائدین نے یکساں اور مشترکہ کلچر اور تاریخی بیانیہ، جو اس کے منتوع معاشرے کو یک جٹ کئے ہوئے ہے، کی بنیاد پر ایک نیشن اسٹیٹ تصور کیا تھا۔

تاہم جدید انڈین نیشن کے مشترکہ تاریخی ورثہ کو لسانی بنیادوں پر سب نیشنلزم یا ذیلی قومیت کے ابھار کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں کیونکہ ملک میں بعض آبادیاں اپنی تاریخ کی بنیاد پر جدید بھارت کے بیانیہ کو چلینج کررہی ہیں۔

احتیاط کا تقاضا ہے کہ سیاستداں ملک کی اندرونی حد بندیوں میں موجود لسانی بنیادوں سے منسوب کمزوریوں کا سیاسی استحصال کرنے سے گریز کریں۔ جوں جوں ملک کے شہری علاقوں میں تنوع پیدا ہوگا بھارت کی آبادی متنوع معاشرتی ڈھانچے میں بندھتی جائے گی۔

بیلگاوی ضلع بھی ایک نہ ایک دن اسی متنوع معاشرتی ڈھانچے میں بندھ جائے گا۔ اُدھو ٹھاکرے کا دعویٰ دراصل ایک تنگ نظر لسانی سیاست کا نتیجہ ہے جس سے آسانی کے ساتھ بچا جاسکتا ہے۔

تاہم اُن ریاستوں، جن میں لسانی اعتبار سے اقلیتیں موجود ہیں، میں یہ بات یقینی بنائی جانی چاہیے کہ ان اقلیتوں کو متعلقہ ریاستوں کی حکمرانی میں حصہ ملنا چاہیے۔ آبادیوں کی لسانی شناخت کے تحفط سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن بھارت کی سالمیت کو لسانی برتری کے اس چھوٹے پن سے نہیں کھویا جانا چاہیے۔ ایک کامل اتحاد کے نتیجے میں ان دونوں کو تحفظ فراہم ہوگا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details