ایسا کہا جاتا ہے کہ نوابوں کے شہر لکھنؤ میں قدیم و تاریخی عمارتوں کی فہرست میں ایک سے بڑھ کر ایک نایاب نگینہ موجود ہے۔ جسے دیکھ کر آج بھی تعریف کئے بغیر نہیں رہ پاتے۔
ان میں سے ایک لکھنو کا شاہ نجف امام باڑہ ہے، جو اب پوری طرح خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔
گومتی ندی کی ساحل پر واقع شاہ نجف امام باڑہ کا سنگ بنیاد اودھ کے آخری نواب اور پہلے بادشاہ غازی الدین حیدر نے 1814 سے 1827 کے درمیان رکھی تھی۔
شاہ نجف امام باڑہ اسلام کے چوتھے خلیفہ اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مقبرے سے مشابہت رکھتا ہے۔
شاہ نجف امام باڑہ بدحالی کا شکار غازی الدین حیدر نے شاہ نجف کی طرز پر اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت میں اس امام بارگاہ کی تعمیر کروائی تھی۔
اس عمارت میں لخوری اینٹوں اور چونے کے مسالے کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بیچ میں بڑا عالیشان گنبد ہے، جو اب کمزور ہو گیا ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ نے مرمت کا کام شروع کروایا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے کام آگے جاری نہیں رہ پایا۔
شاہ نجف امام باڑہ بدحالی کا شکار اس کے چاروں جانب ایک گلیارہ نما برآمدہ ہے، جو آج بدحالی کا شکار ہے۔
شاہ نجف امام باڑہ بدحالی کا شکار امام باڑہ کی بنیاد پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا، جس کا بیشتر حصہ ٹوٹ گیا ہے۔
اس امام باڑہ کے بیچ والے کمرے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جریح، شاہ نشین پر رکھے علم، تعزیہ، جھاڑ فانوس ہاتھی دانت، شیشے کے اشیاء، تصاویر اور حضرت علی اور حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہٗ سے وابستہ تمام خطوط کی نقل بھی موجود ہیں۔
شاہ نجف امام باڑہ بدحالی کا شکار شاہ نجف امام باڑہ کا ایک دروازہ گومتی ندی کے ساحل کی جانب بھی کھلتا ہے، لیکن موجودہ حال میں اسے آمدورفت کیلئے بند کردیا گیا ہے۔
شاہ نجف امام باڑہ بدحالی کا شکار شاہ نجف میں 15 برسوں سے ملازمت کر رہے طارق نے بتایا کہ آمد و رفت نہ ہونے کی وجہ سے جنگل ہو جاتا ہے ۔
شاہ نجف امام باڑہ بدحالی کا شکار ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شاہ نجف امام باڑہ کے سپاہی حسن عباس نے بتایا کہ لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد سے ہی آثار قدیمہ نے شاہ نجف میں چل رہے تزئین قاری کے کام پر روک لگا دی تھی، جو اب تک دوبارہ شروع نہیں کی گئی۔
قابل ذکر ہے کہ شاہ نجف امام باڑہ کی دیواروں سے پلستر ٹوٹ رہا ہے اور عالی شان گنبد بھی بدحال ہے۔
مزید پڑھیں:لکھنئو امام باڑہ سے سیاح ندارد
اگر وقت رہتے آثار قدیمہ نے کام شروع نہیں کروایا تو امام باڑہ کو مزید نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ یہ امام باڑہ 200 سالہ قدیم عمارت ہے۔
حسن عباس نے بتایا کہ یہاں پر بڑی تعداد میں زائرین آتے ہیں کیونکہ بہت کم لوگ ہی شاہ نجف جاکر حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کر سکتے ہیں لہذا عقیدت مند یہاں آکر مولا علیہ السلام سے دعا کرتے ہیں۔
اس امام باڑہ میں بادشاہ غازی الدین حیدر کی وصیت کے مطابق ان کے انتقال کے بعد اسی کے اندر ان کی تدفین کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ ان کی تین بیگمات سرفراز محل، مبارک محل اور ممتاز محل کی بھی قبریں موجود ہیں۔ یہاں پر انگریزوں اور آزادی کے دیوانوں کے بیچ مسلسل ایک سال تک خونریزی لڑائی ہوئی تھی، جس کے بعد انگریزوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔
شاہ نجف امام بارگاہ ایک طرف جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی یاد میں تعمیر کرایا گیا، وہیں یہ جنگ آزادی کے تاریخ کا بھی حامل ہے۔
اگر آثار قدیمہ نے وقت پر اس جانب توجہ نہیں دی تو یہ تاریخی عمارت بھی سبطین آباد امام باڑہ کی طرح گر کر تباہ و برباد ہو جائے گی۔