مرکزی حکومت کی جانب سے بنائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء دہلی پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے تھے اور پولیس نے انہیں بری طرح پیٹا تھا جس میں متعدد طلباء شدید زخمی ہوئے تھے۔
سی اے اے احتجاج کے ایک برس مکمل، ای ٹی وی بھارت کی خصوصی رپورٹ بہار کے سمستی پور سے تعلق رکھنے والے جامعہ میں ایل ایل ایم سالِ آخر کے طالب علم منہاج الدین کیمپس میں پولیس کی کارروائی کے دوران زخمی ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ ایک آنکھ سے محروم ہوگئے۔
منہاج الدین نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ لائبریری کے ابن سینا بلاک میں مطالعہ کر رہے تھے کہ 20 تا 25 پولیس اہلکاروں نے وہاں آکر طلباء پر لاٹھیاں برسانی شروع کر دیں۔ ان پر بھی لاٹھیاں پڑیں جس سے ان کے ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی۔
اس معاملے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پراکٹر وسیم احمد خان نے کہا کہ تھا کہ پولیس زبردستی جامعہ کے کیمپس میں داخل ہوئی تھی اور طلباء و دیگر اسٹاف کو پیٹا تھا۔
مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل جس کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی چھ اقلیتوں ہندو، سکھ، بودھ، پارسی، جین اور مسیحی مذہب کے لوگوں کو بھارت کی شہریت دینے کی بات کہی گئی جبکہ مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا، پیش کیا تھا اور بل آسانی کے ساتھ منظور بھی ہوگیا لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ راجیہ سبھا میں یہ بل منظور نہیں ہو سکے گا۔ چونکہ بل کی منظوری کے لیے جو نمبرز درکار تھے، وہ برسراقتدار جماعت کے پاس موجود نہیں تھے اس کے باوجود راجیہ سبھا میں یہ بل نہ صرف آسانی سے منظور ہوگیا بلکہ اس پر صدر رام ناتھ کووند نے دستخط کرکے اسے باضابطہ قانون کی شکل دے دی۔
قانون بننے کے بعد پورے ملک میں احتجاج کی لہر اٹھی اور ہر شہر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہونے شروع ہوگئے جس میں دہلی کے شاہین باغ میں ہونے والے منفرد مظاہرے نے عالمی سطح پر سرخیاں حاصل کیں۔
سی اے اے کے خلاف پورے ملک میں ہونے والے مظاہرے پُرتشدد بھی ہوئے تھے جس میں درجنوں افراد کی جانیں گئی تھیں۔ حالانکہ مظاہرین پُر امن طریقے سے احتجاج کر رہے تھی لیکن چند سماج دشمن عناصر نے اس میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کی جس سے نمٹا بھی گیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی کارروائی مغربی بنگال میں آئندہ برس ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر بی جے پی کے اعلی رہنماؤں کی جانب سے یہ بیانات دیے جا رہے ہیں کہ ملک بھر میں ایک بار پھر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو نافذ کیا جائے گا جس کے خلاف بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور ایسا خدشہ ہے کہ پھر سے پورے ملک میں ایک بار پھر سی اے اے مخالف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگا جو ملک کے مفاد میں بالکل نہیں ہوگا۔