زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے احتجاج کو 100 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ اس کی شروعات 26 نومبر کو اس وقت ہوئی جب سینکڑوں ٹریکٹر قومی دارالحکومت دہلی کی طرف ملک کی مختلف ریاستوں سے روانہ ہوئے۔
دہلی کی سرحد تک پہنچنے کی جدوجہد کے دوران کسانوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہیں کئی مقامات پر پولیس نے روکا۔ ان کے خلاف کاروائیاں ہوئیں۔ مرکزی حکومت نے احتجاج کے مقام پر کسانوں کو چاروں طرف سے گھیرنے کی بھی بھرپور کوششیں کی۔ بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی کی گئی۔ سخت ترین سردیوں کے ایام میں پولیس کے ذریعہ واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے بھی ان پر داغے گئے لیکن پولیس کی سختی کے سامنے وہ ڈٹے رہے اور آج بھی ان کا احتجاج پوری قوت اور شدومد کے ساتھ جاری ہے۔
اس احتجاج کو شروع کرنے کا سہرا پنچاب اور ہریانہ کے تقریباً تین سے چار لاکھ کسانوں کے سر جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور اس احتجاج نے قومی سطح پر زور پکڑ لیا۔ ملک کی کئی ریاستوں سے کسان اور عام شہری ان سرحدوں پر پہنچنے لگے اور چند ہی دنوں میں ملک کی دیگر ریاستوں کے کسان اور عام شہری بھی سِنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈ سمیت دیگر مظاہروں کے مقام پر پہنچ کر وہاں خیمہ زن ہوگئے۔
حکومت اور کسانوں نے پہلے ہی دن یہ واضح کردیا تھا کہ ان کی بات چیت کے درمیان کوئی بھی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔