ریاست اتر پردیش کے غازی آباد کے مراد نگر میں شمشان میں 25 افراد کی ہلاکت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے، شمشان گھاٹ جہاں لوگ اپنے پیروں پر چل کر گئے تھے لیکن دوسروں کے کندھوں پر لوٹے، جہاں ابھی تک ایک لاش کی آگ بجھی نہیں تھی کہ مزید لاشیں تیار ہو گئیں۔
غازی آباد میں شیڈ حادثے میں تین گرفتاریاں شمشان گھاٹ میں چیخ و پکار مچی ہوئی تھی اور بربادی کے آثار نمایاں تھے۔ ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ درحقیقت ضلع غازی آباد کے مراد نگر کے شمشان میں بنے ہوئے شیڈ میں ہوئے حادثے میں 25 افراد کی موت ہو گئی۔
اتوار کے روز ایک سبزی فروش کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے لوگ غازی آباد کے مراد نگر شمشان پہنچے تھے، پھر بارش شروع ہوگئی اور لوگوں نے بارش سے بچنے کے لیے شمشان میں بنے شیڈ میں پناہ لے لی، لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ موت کی چھت کے نیچے پناہ لے رہے ہیں۔ بارش کے درمیان ایک تیز آواز نے سب پر کپکپی طاری کر دی، جس شیڈ کے نیچے لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی وہ شیڈ ہی اچانک ان پر آگرا اور لوگ اس کے نیچے دب گئے۔
عالم یہ تھا کہ شیڈ گرنے سے کسی کا ہاتھ کٹ گیا تو کسی کا پیر! حالت یہ تھی کہ اندر دبے لوگوں کے جسم کا حصہ کٹ کر بکھر گیا تھا، ہر طرف تباہی کا منظر تھا اور وہاں کھڑے لوگوں کی آنکھیں نم تھیں۔
بتایا جاتا ہے کے یہ شیڈ دو تین ماہ قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ تقریبا 55 لاکھ روپے اس کی تعمیر پر خرچ کیے گئے تھے لیکن 55 لاکھ روپیے سے بنا شیڈ 25 افراد کے لئے موت کا شیڈ بن گیا۔
شیڈ گرنے کا دھماکہ اتنا زبردست تھا کہ اس کی بازگشت دور دور تک سنائی دی، صدر، وزیر اعظم سے لے کر ریاست کے وزیر اعلی تک حادثے پر غم کا اظہار کیا، ایک سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے وزیر اعلی یوگی نے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی۔فوری طور پر تین گرفتاریاں بھی کی گئیں، حالانکہ ٹھیکیدار مفرور بتایا جا رہا ہے۔ جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے دو لاکھ معاوضے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
لیکن جن کے گھر کا چراغ بجھ گیا تھا وہ غصے کی آگ کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔ لاش کو قومی شاہراہ 58 پر رکھ کر اسے جام کردیا، لواحقین کا کہنا ہے کہ صرف وہی لوگ جو حادثے کا ذمہ دار ہیں اگر انہیں سزا دی گئی تو حقیقی معنوں میں انصاف ملے گا۔ مرنے والوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے گھر کا واحد سہارا تھے۔ 25 افراد بدعنوانی کا لقمہ بن گئے۔