صدیقیہ مسجد کے ٹرسٹی مقبول خان کہتے ہیں کہ مسجد طویل عرصے سے اس بڑے احاطے میں تعمیر کی گئی ہے۔ ایک ہزار سے زائد نمازیوں کی یہاں شرکت رہتی ہے۔ یہ مسجد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے۔ بلڈر اور سرکاری تنظیم ایس آر اے اس مسجد کو منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
مسجد کے زمہ داروں کا کہنا ہے کہ مسجد کی جگہ بلڈر نے انہیں کہا ہے کہ از سر نو تعمیر کے بعد جو عمارت تعمیر ہوگی اس کے مکان فروخت کیے جائیں گے جبکہ مسجد کی اس بڑی جگہ کے بدلے میں چھوٹی جگہ دیکر مسجد کو محدود کر کے اسے کہیں اور مختص کی جائیگی۔ اس وجہ سے یہاں مقیم مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جا رہی ہے۔
ایس آر اے اور بلڈر کی اس دھاندلی اور جبر کو دیکھتے ہوئے مسجد اور مقامی مسلمانوں نے بلڈر اور ایس آر اے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
ایڈوکیٹ این پی بھاوسار کا کہنا ہے کہ مسجد جوکہ وقف کی ملکیت ہے۔ اس میں کسی کی دخل انداز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلڈر اسے جھوپڑپٹی کی از سر نو تعمیر کے لئے بنائے گئے قوانین کی پشت پناہی میں اس کی از سر نو تعمیر کرنا چاہتی ہے لیکن وقف کی اس ملکیت کو اس قانون کے دائرے میں لایا نہیں جا سکتا۔ اسلیے ہم نے کورٹ سے رجوع کیا ہے۔