چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا ہے۔واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی نظربندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر خان کا ٹوئیٹ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ”اچھا فیصلہ” بتایا ہے۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی والی بینچ ، جو یکم ستمبر کو ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی اتر پردیش حکومت کی درخواست پر سماعت کررہا تھا، نے کہا کہ یہ 'اچھا فیصلہ' ہے۔
بنچ نے کہا کہ ہم اس فیصلے میں مداخلت نہیں کریں گے، تاہم یہ مشاہدہ کسی بھی دوسری کارروائی پر اثرانداز نہیں ہوگا، اس بنچ میں جسٹس اے ایس بوپنا اور وی رام سوبرمنیم بھی شامل تھے۔
ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے اس مجرمانہ کارروائی میں خان کو معاف کردیا تھا۔جس پر بنچ نے مشاہدہ کیا کہ 'فوجداری مقدمات کا فیصلہ ان کی میرٹ پر کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ڈاکٹر کفیل خان نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ” سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے حکم کو صحیح بتایا اور اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔ جئے ہند، جئے بھارت”۔
واضح رہے کہ سنہ 2017 میں ڈاکٹر کفیل خان اس وقت سرخیوں میں آئے تھے، جب گورکھپور کے بابا راگھو داس (بی آر ڈی) میڈیکل کالج میں آکسیجن سلنڈر نہ ہونے کی وجہ سے متعدد بچوں کی موت واقع ہوگئی تھی اور ڈاکٹر کفیل خان نے وقت پر آکسیجن سلنڈر کا بندوبست کرکے متعدد بچوں کی جان بچائی تھی۔لیکن بعد میں اسپتال کے نو دیگر ڈاکٹروں اور عملے کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا، بعد میں ان سب کو بعد میں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
یکم ستمبر کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت خان کی نظربندی ختم کردی تھی اور ان کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں کفیل خان کے ذریعہ دیئے گئے تقریر سے نفرت یا تشدد کو فروغ نہیں ملتا ہے، بلکہ قومی سالمیت اور شہریوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے والا تھا۔عدالت نے ان پر لگائے گئے این ایس اے کو غلط بتاتے ہوئے ہٹا دیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان کو جیل میں ڈالنا بھی غلط تھا۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر کفیل خان کو فوراً رہا کرنے کے بھی احکامات دیئے ہیں۔
ہائیکورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ علی گڑھ کے ضلعی مجسٹریٹ جنھوں نے خان کی نظربندی کا حکم منظور کیا تھا ، انہوں نے خان کی تقریر کا کچھ حصہ ہی پڑھا اور تقریر کے اصل ارادے کو نظر انداز کیا گیا۔
ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کی والدہ نزہت پروین کی طرف سے داخل کی گئی عرضی پر یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ضلعی مجسٹریٹ کے ذریعہ نظربندی کا حکم غیر قانونی تھا