نئی دہلی: تبدیلی مذہب مخالف قوانین (مبینہ لو جہاد قوانین) کی آئینی حیثیت اور ان قوانین کے خلاف داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مرکزی حکومت اور چھ ریاستوں کو نوٹس جاری کیا اور حلف نامہ داخل کرنے کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو مرکز اور چھ ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ جمعیت علما کی عرضی پر جواب داخل کریں، جس میں بین مذاہب شادیوں کی روک تھام کے لیے بنائے گئے متنازع قوانین کے خلاف دائر 21 مقدمات کو عدالت عظمیٰ میں منتقل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس نرسہما کے روبرو سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اوردیگر پیش ہوئے۔ دیگر فریقوں کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، دشینت دوے، سی یو سنگھ، اروند داتار، اندرا جے سنگھ، ورندہ گروور و دیگر بھی پیش ہوئے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے۔ آج عدالت نے صرف جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) کی جانب سے داخل پٹیشن پر نوٹس جاری کیا اور سماعت کے لیے قبول کر لیا۔ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن کا نمبر سول رٹ پٹیشن 40/2023 ہے۔ عدالت نے دیگر تین عرضداشتوں کو بھی سماعت کے لیئے قبول کرلیا جنہوں نے مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے عدالت نے آج صرف ان عرضداشتوں پر نوٹس جاری کیا جن پر ابتک نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا جبکہ ٹرانسفر پٹیشن اور مداخلت کار کی دیگر عرضداشتوں پر سماعت بعد میں کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔
جمعیۃ علماء ہند سمیت مختلف مسلم فریق نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے جبکہ اشوینی کمار اپادھیائے نامی ایڈوکیٹ نے مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کرکے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ مسلمانوں اور کرسچنس کی جانب سے مبینہ جبراً کرائے جارہے تبدیلی مذہب پر کارروائی کرے۔
حالانکہ عدالت نے آج کوئی عبوری فیصلہ نہیں صادر کیا لیکن عدالت نے گذشتہ سماعت پر اپنے روزنامہ میں نو ٹ کیا تھاکہ لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والی عرضداشتیں الہ آباد ہائی کورٹ میں 5، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ 7، گجرات ہائی کورٹ 2، جھارکھنڈ ہائی کورٹ 2، ہماچل پردیش ہائی کور ٹ 4، کرناٹک ہائی کورٹ میں 1/ پٹیشن زیر سماعت ہے۔