سپریم کورٹ نے دونوں تلگو ریاستوں تلنگانہ اورآندھراپردیش کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لئے دریائے کرشنا کے پانی کی تقسیم کے مسئلہ پر پیداشدہ تنازعہ کا قابل قبول طریقہ سے حل نکالے۔
اس معاملہ کی سماعت چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرقیادت بنچ نے کی جن کی پیدائش متحدہ آندھراپردیش میں ہوئی تھی۔اس موقع پر انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اس معاملہ کے قانونی مسائل پر فیصلہ نہیں دے سکتے تاہم اگر دونوں ریاستیں مذاکرات کے ذریعہ اس تنازعہ کی یکسوئی کرنا چاہتی ہیں تو بنچ اس میں مصالحت کار کا رول ادا کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے حکومت اے پی کی طرف سے رجوع ہونے والے وکیل دُشینت دوے سے کہا ”میرا تعلق دونوں ریاستوں سے ہے اور میں قانونی طورپر اس معاملہ کی سماعت نہیں کرناچاہتا۔تاہم اگر مصالحت کے ذریعہ اس معاملہ کا حل نکالاجاسکتا ہے تو ایسا کیجئے بصورت دیگر ہم کو اس معاملہ کی سماعت دوسری بنچ کے حوالے کرنی پڑے گی“۔
یہ بھی پڑھیں:'پی ایم ایم وی وائی اسکیم کا ایک بھی استفادہ کنندہ تلنگانہ میں نہیں'
دوے نے اپنی عرضی میں الزام لگایا کہ تلنگانہ حکومت دریائے کرشنا کے پانی کے قانونی حق سے اے پی کے عوام کو محروم کررہی ہے۔دوے نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر کہا کہ انہیں اس تعلق سے اے پی حکومت سے بات کرنی پڑے گی کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ بھی ہے۔دوے نے حال ہی میں آسام اور میزورم کے درمیان سرحد کے تنازعہ کا بھی حوالہ دیااور کہا کہ ملک کی کسی بھی ریاست میں اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہئے۔
تلنگانہ کی طرف سے رجوع ہوتے ہوئے سینئر وکیل سی ایچ ویدیاناتھ نے بنچ جس میں جسٹس سوریہ کانت بھی تھے سے کہا کہ مرکزی حکومت نے اس معاملہ میں مداخلت کی ہے اور عدالت کے فیصلہ کے لئے کچھ بھی نہیں بچا ہے۔اس پر جسٹس رمنا نے دونوں ریاستوں کے وکلا سے خواہش کی کہ وہ اپنے موکلین کوکسی بھی تیسرے فریق کے بغیر اس معاملہ کے قابل قبول حل کے لئے راغب کروائے۔