اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

زرعی شعبے میں ملک کو خود کفیل بنانے کے لئے کسانوں کی فلاح و ترقی ناگزیر - farm laws

'ہم ہی کسان ۔۔۔ ہم ہی جوان'، یہ نعرہ کسانوں سے متعلق متنازع قوانین کو کالعدم کرنے کے لئے جاری احتجاج میں مظاہرین کا ایک مقبول نعرہ ہے۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس طرح سے سپاہی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں، اُسی طرح کسان بھی ملک کی فوڈ سیکورٹی کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ کسان کے ہل نے ہی ہماری شاندار تہذیب کی جڑیں مضبوط کی ہیں اور زراعت کو ہمارا قومی کلچر بنایا ہے۔

Rescue the farmer
Rescue the farmer

By

Published : Feb 11, 2021, 11:00 AM IST

جب قدرتی آفات کی وجہ سے کسان کی فصل تباہ ہوجاتی ہے یا پھر بازار کی دھوکہ دہی کی وجہ سے اسے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو وہ یا تو چُپ چاپ سہہ لیتا ہے یا پھر زہر کھا کر خود کُشی کرلیتا ہے۔ اس لئے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر آج کسان نے احتجاج کا راستہ کیوں اختیار کر لیا ہے۔ وزیر اعظم مودی دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ قوانین کسانوں کے حق میں ہیں۔ اُن کا یہ کہنا دُرست ہے کہ 1971ء میں ملک میں 51 فیصد کسانوں کے پاس فی کس ڈھائی ایکڑ سے کم زمین تھی اور اب ان کی تعداد بڑھ کر 68 فیصد ہوگئی ہے۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 86 فیصد کسانوں کے پاس فی کس دو ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ حاشیئے پر کھڑے اور کمزور حالات سے جوجھنے والے ایسے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے منڈیوں، جن پر بچولیوں کا قبضہ ہے، کے نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں ایک ہی مارکیٹ کے قیام سے غریب کسانوں کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے منظم طریقے سے اصلاحات لانے کی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ پچیس سال کے عرصے میں تین لاکھ سے زائد غریب کسان خود کُشی کرچکے ہیں۔

جہاں تک کسانوں سے متعلق منظور کئے گئے قوانین کا تعلق ہے، انہیں بناتے وقت نہ ہی کسانوں کی انجمنوں کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی ریاستوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا گیا۔ اس لئے ان قوانین کو مطلوبہ اصلاحات کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین کی وجہ سے اُن کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا مناسب نہیں کہ اگر ان قوانین کے کوئی غلط نتائج برآمد ہوئے تو اس کا ذمہ دار اُنہیں گردانا جائے۔ کیوں کہ کسان اس حالت میں نہیں ہیں کہ وہ کسی غلط نتیجے کے متحمل ہوں۔ اس معاملے کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے کسانوں اور ریاستوں کو اعتماد میں لے کر ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے، جو ملک کے مفاد میں ہوں۔

ملک میں 'گرین ریولیوشن' یعنی سبز انقلاب صرف اُسی صورت میں لایا جاسکتا ہے، جب حکومتیں کسانوں کی فلاح و ترقی کی ذمہ داری لے لیں۔ لال بہادر شاستری کے دورِ اقتدار میں منیمم سپورٹ پرائز (ایم ایس پی) یعنی حکومت کی جانب سے زرعی پیداوار براہ راست کسانوں سے خریدنے کی طے شدہ قیمت مقرر کرنے کے نظام، کو قائم کرکے اس طرح کے سبز انقلاب کی شروعات کی گئی تھی۔ زرعی منڈیوں اور فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کا قیام بھی اسی دور میں عمل میں لایا گیا۔ ورگھیس کورئین (امول برانڈ کے بانی)، جنہوں نے اپنے ویژن کو عملی جامہ پہنا کر ملک کی ڈیری یعنی دودھ کی صنعت کو 8 لاکھ کروڑ کی حامل انڈسٹری بنانے میں مدد دی اور دیہی ترقی میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کیا، انہیں سفید انقلاب کا بانی مانا جاتا ہے۔ زرعی شعبے کی ترقی کےلئے مرکزی اور ریاستی سرکاروں کے پاس اسی طرح کا ویژن ہونا چاہیے۔

کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں زرعی منڈیوں کا نظام ختم ہوجائے گا کیونکہ ان قوانین نے زرعی شعبے میں کارپوریٹ کمپنیوں کے داخلے کی راہ ہموار کردی ہے۔ اُنہیں یہ خدشہ بھی لاحق ہےکہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کی جانب سے اناج خریدنا بند ہوجانے کے نتیجے میں مینمم سپورٹ پرائز کا نظام بھی ختم ہوجائے گا۔

بجائے اس کے کہ کسانوں کے احتجاج کو محض چند ریاستوں تک ہی محدود سمجھا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ اس احتجاج کے پس پردہ سیاسی مفادات کار فرما ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی حکمت عملی مرتب کرے جس کے نتیجے میں زرعی شعبے کو خود کفیل بنانے میں مدد ملے۔

مرکزی وزیر خزانہ نے گزشتہ سال مئی میں اعلان کیا تھا کہ نیشنل بینک فار ایگریکلچر اینڈ رورل ڈیولپمنٹ (این اے بی اے آر ڈی) زرعی پیداوار کو بین الاقوامی بازاروں تک پہنچانے کے لئے ایکسپورٹ کرنے کے عمل میں مدد کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپے مہیا کرے گا۔

مرکز کا کہنا ہے کہ کسان سمان ندھی سکیم کے تحت 1.15 لاکھ کروڑ روپے کسانوں کے بینک کھاتوں میں جمع کئے جاچکے ہیں۔ اگر اس رقم کو زرعی شعبے کےلئے انفراسٹکچر کو قائم کرنے، جیسے کہ کولڈ اسٹوریج کی سہولیات مہیا کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا تو اس سے کسانوں کو بے حد فائدہ ہوتا۔

ملکی ضرورت کے مطابق اور بین الاقوامی بازاروں تک زرعی پیداوار پہنچانے کےلئے ایک موثر ماسٹر پلان تیار کرنے کےلئے ایک خصوصی میکا نزم سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کےلئے ڈاکٹر سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق مینمم سپورٹ پرائز کو وسعت دینے اور زرعی پیداوار سے جڑی اشیاء کو ایکسپورٹ کرکے مینمم سپورٹ پرائز کے کا صرفہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details