جب قدرتی آفات کی وجہ سے کسان کی فصل تباہ ہوجاتی ہے یا پھر بازار کی دھوکہ دہی کی وجہ سے اسے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو وہ یا تو چُپ چاپ سہہ لیتا ہے یا پھر زہر کھا کر خود کُشی کرلیتا ہے۔ اس لئے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر آج کسان نے احتجاج کا راستہ کیوں اختیار کر لیا ہے۔ وزیر اعظم مودی دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ قوانین کسانوں کے حق میں ہیں۔ اُن کا یہ کہنا دُرست ہے کہ 1971ء میں ملک میں 51 فیصد کسانوں کے پاس فی کس ڈھائی ایکڑ سے کم زمین تھی اور اب ان کی تعداد بڑھ کر 68 فیصد ہوگئی ہے۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 86 فیصد کسانوں کے پاس فی کس دو ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ حاشیئے پر کھڑے اور کمزور حالات سے جوجھنے والے ایسے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے منڈیوں، جن پر بچولیوں کا قبضہ ہے، کے نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں ایک ہی مارکیٹ کے قیام سے غریب کسانوں کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے منظم طریقے سے اصلاحات لانے کی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ پچیس سال کے عرصے میں تین لاکھ سے زائد غریب کسان خود کُشی کرچکے ہیں۔
جہاں تک کسانوں سے متعلق منظور کئے گئے قوانین کا تعلق ہے، انہیں بناتے وقت نہ ہی کسانوں کی انجمنوں کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی ریاستوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا گیا۔ اس لئے ان قوانین کو مطلوبہ اصلاحات کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین کی وجہ سے اُن کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا مناسب نہیں کہ اگر ان قوانین کے کوئی غلط نتائج برآمد ہوئے تو اس کا ذمہ دار اُنہیں گردانا جائے۔ کیوں کہ کسان اس حالت میں نہیں ہیں کہ وہ کسی غلط نتیجے کے متحمل ہوں۔ اس معاملے کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے کسانوں اور ریاستوں کو اعتماد میں لے کر ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے، جو ملک کے مفاد میں ہوں۔
ملک میں 'گرین ریولیوشن' یعنی سبز انقلاب صرف اُسی صورت میں لایا جاسکتا ہے، جب حکومتیں کسانوں کی فلاح و ترقی کی ذمہ داری لے لیں۔ لال بہادر شاستری کے دورِ اقتدار میں منیمم سپورٹ پرائز (ایم ایس پی) یعنی حکومت کی جانب سے زرعی پیداوار براہ راست کسانوں سے خریدنے کی طے شدہ قیمت مقرر کرنے کے نظام، کو قائم کرکے اس طرح کے سبز انقلاب کی شروعات کی گئی تھی۔ زرعی منڈیوں اور فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کا قیام بھی اسی دور میں عمل میں لایا گیا۔ ورگھیس کورئین (امول برانڈ کے بانی)، جنہوں نے اپنے ویژن کو عملی جامہ پہنا کر ملک کی ڈیری یعنی دودھ کی صنعت کو 8 لاکھ کروڑ کی حامل انڈسٹری بنانے میں مدد دی اور دیہی ترقی میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کیا، انہیں سفید انقلاب کا بانی مانا جاتا ہے۔ زرعی شعبے کی ترقی کےلئے مرکزی اور ریاستی سرکاروں کے پاس اسی طرح کا ویژن ہونا چاہیے۔