دہلی: مرکزی حکومت کی جانب سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر عائد کی گئی پابندی سے متعلق سیاسی رہنماوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں بہار حکومت کے اقلیتی بہبود کے وزیر زما خان نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت ایک خاص مذہب کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ پی ایف آئی کے خلاف پابندی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ پی ایف آئی کی طرح آر ایس ایس اور بجرنگ دل بھی ہے۔ Political Reaction On Ban On PFI
کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان کوڈیکنل سریش نے آر ایس ایس پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور پی ایف آئی دونوں برابر ہیں، اس لیے حکومت کو دونوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ صرف پی ایف آئی ہی کیوں؟
بریلی کی آل انڈیا مسلم جماعت کے قومی صدر مولانا شہاب الدین رضوی نے کہا کہ حکومت نے بنیاد پرست تنظیم پی ایف آئی پر پابندی لگا کر اچھا قدم اٹھایا ہے۔ بھارت کی سرزمین بنیاد پرست نظریے کی سرزمین نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ایسا بنیاد پرست نظریہ پنپ سکتا ہے جس سے ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرہ ہو۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے کہا کہ میں پی ایف آئی پر پابندی کے حکومت ہند کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ بھارت کے خلاف تفرقہ انگیز یا شرانگیز عناصر سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
پی ایف آئی پر پابندی پر کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومئی نے کہا کہ اس تنظیم پر پابندی لگانے کا وقت آگیا ہے۔ حکومت ہند نے درست فیصلہ کیا ہے۔ یہ تمام ملک دشمن گروہوں کے لیے پیغام ہے۔ میں لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ایسی تنظیموں سے تعلق نہ رکھیں۔ کافی عرصے سے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ارون سنگھ نے بنگلورو میں کہا کہ جس طرح راجستھان کے کئی اضلاع میں فسادات ہوئے، اسی وقت ہم کہہ رہے تھے کہ پی ایف آئی اس میں ملوث ہے۔ یہاں تک کہ جب سدارامیا اقتدار میں تھے، تب بھی 23 سے زیادہ لوگوں کا قتل کیا گیا تھا۔ ملک کو متحد رکھنے کے لیے پی ایف آئی پر پابندی ضروری تھی۔