رمضان المبارک کی آمد کا ہر مسلمان خواہشمند رہتا ہے لیکن گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی رمضان سابقہ برسوں سے بالکل مختلف ہے۔ نہ بازار میں رونقیں ہیں اور نہ ہی نمازیوں سے مساجد گلزار۔ پہلے افطار پارٹیوں کا دور دورہ ہوتا تھا لیکن گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی وبائی امراض نے سب ختم کر دیا۔
لاک ڈاؤن سے کاروبار متاثر، رمضان کی رونقیں غائب کورونا وبا کے پہلے نوابی لکھنؤ کے اکبری گیٹ میں تاحد نگاہ بھیڑ نظر آتی تھی۔ عصر سے مغرب کے درمیان پیدل چلنا دشوار تھا لیکن اب ہر طرف خاموشی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران دکاندار داؤد نے بتایا کہ میں تقریبا 35 برسوں سے ماہ رمضان میں سوائی فینی کا کاروبار کر رہا ہوں لیکن کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم لوگوں کو ایسے دن بھی دیکھنے کو ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بھی کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن نافذ تھا اور اس بار بھی ہفتے میں تین دن کا لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب نہ تو باہر سے کوئی سامان آ رہا ہے اور نہ ہی لاک ڈاؤن کے چلتے خرید دار آ رہے ہیں۔ دوکانداری پر اس کا برا اثر پڑ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارا پیسہ پھنسا ہوا ہے لہذا دکان کھولنا مجبوری ہے۔ یہاں کے ذمہ داران کی مہربانی ہے کہ وہ لوگ تین بجے سے مغرب کی اذان کے وقت تک دکان لگانے کی اجازت دے رکھے ہیں کیونکہ اس دوران روزہ دار کھجور، فینی، پھل خریدنے آتے ہیں لیکن کسی بھی قیمت پر لوگوں کو ایک ساتھ جمع نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔
داؤد نے بتایا کہ میری بیسن کی روٹی کی بھی بڑی دکان ہے لیکن لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے سبب بند ہے۔ اس سے کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ پریوار کی کفالت بہت مشکل سے ہو پا رہی۔ ہم گھاٹے کا سودا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ بہت کم لوگ باہر نکل رہے ہیں۔
ایک دوسرے دکاندار نے بتایا کہ یہاں پر رمضان میں شہر کے دوسرے علاقوں سے لوگ آتے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ وہیں دوسری جانب پولیس ہمیں پریشان کرتی ہے۔ ہمیں روڈ کے کنارے دکان نہیں لگانے دیتے ہیں، زبردستی بھگا دیا جاتا ہے۔ آخر ہم کہاں جائیں؟
انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے بڑی پریشانی ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کریں؟ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم لوگ بھکمری کے دہلیز پر پہنچ جائیں گے۔