شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے حاجن علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی سجاد گل Journalist Sajjad Gul جنہیں پولیس نے حال ہی میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے Kashmir journalist Arrested Under PSA کے تحت گرفتار کرکے انہیں جموں جیل منتقل کیا ہے۔ پی ایس اے ڈوزیئر PSA dossier کے مطابق ان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کے فلاح و بہبود کے تعلق سے بہت کم رپورٹنگ کرتے تھے اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرکے لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے کا کام کرتے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ سجادگل سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ صحافت کے طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مقامی نیوز کشمیر والا کے ساتھ ٹرینی رپورٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ پولیس نے انہیں 6 جنوری کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو کے تعلق سے شکایت موصول کے بعد گرفتار کیا تھا جس میں ایک مقتول عسکریت پسند کے خاندان کو بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سجاد گل کے خلاف تین ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔ جس میں دو پولیس کی شکایت پر اور ایک مقامی تحصیلدار کی شکایت کے بعد درج کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ بانڈی پورہ کے سمبل میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے 15 جنوری کو انہیں ضمانت دی تھی لیکن اگلے دن ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
بانڈی پورہ کے ڈپٹی کمشنر اویس احمد کے دستخط شدہ پی ایس اے ڈوزیئر میں سجاد گل کے خلاف جو خدشات ظاہر کیے ہیں ان کے مطابق سجاد گل ہمیشہ سوشل میڈیا پر متنازعہ بیانات کو اپنے ٹویٹر ہینڈل پر پوسٹ کرتے تھے۔
پی ایس اے ڈوزیئر میں تحریر کیا گیا ہے 'کہ ایک صحافی ہونے کے باوجود آپ جموں و کشمیر کی فلاح و بہبود کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کے بجائے ملک و سماج مخالف ٹویٹس پوسٹ کرتے ہیں۔ بلکہ ملک مخالف چیزوں کو پوسٹ کرنے کی تاک میں رہتے ہیں۔ لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے کے لیے حقائق کی جانچ پڑتال کے بغیر ٹویٹس کرتے ہیں۔ عسکریت پسندوں اور ان کے خاندانوں کے خود ساختہ مسیحا پیش کرنے کے طور پر کام کرتے ہیں اور اکثر ایسے مسائل اٹھاتے ہیں جو قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں'