سرینگر:جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے یونین ٹریٹری میں بجلی کے اسماٹ میٹر نصب کرنے کی عوامی سطح پر شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ جس دوران کئی مقامات پر احتجاج بھی ہوئے۔ گزشتہ ایک برس سے شہر سرینگر، جموں اور دیگر قصبوں میں محکمہ بجلی کی جانب سے اسماٹ میٹر نصب کئے جارہے ہیں اور یہ میٹر نصب کرنے کے ٹھیکے مختلف نجی کمپنیوں کو دئے گئے ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق سرینگر اور جموں شہروں میں چھ لاکھ اسماٹ میٹر نصب کرنے ہیں، جن میں دو لاکھ سے زائد اسماٹ میٹر نصب کیے جا چکے ہیں۔ وہیں دیگر اضلاع میں بھی ایک لاکھ سے زائد میٹر نصب کئے جاچکے ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسماٹ میٹر نصب کرنے سے صارفین کو چوبیس گھنٹے بجلی دستیاب رہی گی جبکہ بجلی چوری پر بھی مکمل قابو ہوگا۔
صارفین کی جانب سے اس قدم کی مخالفت کی جارہی ہے۔ شہر سرینگر کے ساتھ ساتھ دیگر قصبوں میں بھی عوام بالخصوص خواتین سراپا احتجاج ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ اسماٹ میٹر نصب کرنے سے ان کی بجلی بل میں اضافہ ہوگا اور وہ گرمی کے آلات استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر میں چوبیس گھنٹے بجلی کی دستیابی ابھی بھی ممکن نہیں ہوئی ہے، جس سے عوام کو کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ بالخصوص سرما کے تین مہینوں میں بجلی کی عدم دستیابی سے لوگ مشکلات میں پڑتے ہیں۔
محکمہ بجلی اسماٹ میٹر کو نصب کرنے کے عمل کا دفاع کر رہی ہے۔ چیف انجینئر جاوید یوسف کے مطابق بجلی ایک ضروری اشیا کے مترادف ہے، جس کا استعمال مفت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح لوگ دیگر ضروریات زندگی کسی رقم کے عوض خریدتے ہیں، اس طرح بجلی کو بھی خریدنے کے لئے رقم ادا کرنی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسماٹ میٹر نصب کرنے سے بجلی چوری پر مکمل روک لگے گی۔ وہیں صارفین کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ چند علاقوں میں لوگوں کی مخالفت ہے لیکن ان احتجاج سے اسماٹ میٹر نصب کرنے پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔