ذیل میں قارئین کے لئے اس انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:
سوال: کووِڈ وبا کی پہلی لہر کے مقابلے میں دوسری لہر کے دوران متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بھارت اس لہر کو کیسے قابو کرپائے گا؟ یہ لہر کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس لہر کے دوران متاثرین کی تعداد روزانہ چار لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں آپ کی کیا رائے؟
جواب: دوسری لہر کے دوران ملک بھر میں متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ ایک یہ ہے کہ پہلی لہر کے مقابلے میں اس بار ہم احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری لہر کے دوران جو وائرس پھیل رہا ہے، وہ پہلے وائرس کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہے۔ چونکہ ہم فوری طور پر سب کو ٹیکے نہیں لگوا سکتے ہیں، اس کے لئے اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں نہ آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی کوالٹی کی ماسک پہنیں، جسمانی دوریاں بنائے رکھیں اور جب گھروں کے اندر ہوں تو یقینی بنائیں کہ ہوا دار ماحول ہو۔ دوسری لہر بہت خطرناک ہے کیونکہ اگر بڑے پیمانے پر لوگ وائرس کا شکار ہوگئے اور ان میں سے ایک قلیل تعداد کی حالت بھی زیادہ خراب ہو، تب بھی یہ ہمارے طبی انفراسٹکچر کے لئے ایک بہت بڑا دباو ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر ہم کوئی تدارک نہ کرپائے تو کووِڈ کی یہ لہر بہت تیزی سے پھیلے گی۔ تاہم خوش قسمتی سے ملک کی مختلف ریاستوں نے اب لوگوں کی نقل و حرکت پر قدغن لگانا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے مجھے اُمید ہے کہ روزانہ چار لاکھ تک لوگوں کے متاثر ہو جانے کا تخمینہ غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔
سوال: ہم نے ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت بلند بانگ دعوے کیے لیکن اب عملی طور پر ہمیں ویکسین کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال کیسے پیدا ہوگئی؟
جواب: اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت میں اگرچہ ویکسین تیار کرنے کی کافی صلاحیت ہے لیکن اس کے لئے درکار خام مال ملک میں دستیاب نہیں ہے۔ ہمیں یہ مال حاصل کرنے کے لئے عالمی سپلائی نظام کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ اس وقت ہر ملک اس خام مال کے حصول میں لگا ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ ویکسین تیار کرنے والے اداروں نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ وہ کتنی مقدار میں ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پایا ہے اور نتیجے کے طور پر ہمیں ویکسین کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تیسرا یہ کہ ویکسین تیار کرنے والے ادارے جانتے ہیں کہ اُن کے پاس مال سپلائی کے لئے مارکیٹ موجود ہے اور وہ اس میں سے کچھ مال کو ایکسپورٹ کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے ہیں، اس لئے اُنہیں وافر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر اس حوالے سے کسی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو، جیسے کہ حکومت کی طرف سے کم قیمت پر مختصر وقت میں مال کی ڈیمانڈ ہو، تو اس صورت میں متعلقہ کمپنیوں کو کام چلانے میں کافی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ناسک: آکسیجن ٹینک لیک ہونے سے 22 مریض ہلاک
سوال: کیا اس سال وائرس کے حوالے سے بےتحاشا ریسرچ کے بعد ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ یہ پیش گوئی کر پائیں کہ مستقبل میں اس وائرس کا رویہ کیا ہوگا؟ اور کیا ہم اس سے نمٹنے کے حوالے سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ مضبوط ہیں؟
جواب: پچھلے سال ہم نے اس وائرس کے حوالے سے کافی معلومات حاصل کرلی ہیں اور ہمارے پاس اب کافی حد یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم مستقبل میں اس وائرس کے رویے کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرسکیں۔ دیگر وائرسز کی طرح یہ وائرس بھی پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس طرح سے اس کے پھیلاو میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرے گا اور ویکسین کی وجہ سے قوتِ مدافعت حاصل کرنے والے لوگوں کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ممکن ہے کہ اس وائرس کی مختلف اقسام کو ہم آنے والے دو سال تک دیکھیں۔ جبکہ اس دوران اس کی ہئیت میں کچھ تبدیلی آنے کی وجہ سے اس کے اثرات زیادہ مہلک بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم جو وائرس انسان کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ زیادہ آسانی کے ساتھ نہیں پھیلتا ہے۔ اس لئے ہمیں اُمید ہے کہ اس کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ انسانی جانوں کا اتلاف نہیں ہوگا۔
سوال: دوسری لہر کے دوران لاک ڈاون کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟ کیا ہماری معیشت اور ہمارے سیاسی حالات لاک ڈاون نانذ کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومت وائرس کو قابو کرنے کے حوالے سے مناسب اقدامات کررہی ہے؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں لاک ڈاون جیسے اقدامات کے بجائے کچھ نیا کرنا ہوگا۔ لاک ڈاون ایک سخت اقدام ہے۔ ہم سماجی اور معاشی نقل و حرکت کو روکے بغیر بھی کچھ بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔
سوال: بھارت میں پایا جانے والا وائرس کس نوعیت کا ہے؟ یہ کس شدت سے اثر انداز ہوسکتا ہے؟