اردو

urdu

Kanpur Violence: پولیس نے کانپور تشدد معاملہ میں 40 مشتبہ ملزمین کا پوسٹر جاری کیا

By

Published : Jun 7, 2022, 7:09 AM IST

کانپور تشدد معاملہ میں ملوث ملزمان کی شناخت کے لیے پولیس نے 40 افراد کی تصاویر جاری کی ہیں۔ پولیس نے عوام سے ملزمان کی گرفتاری کی اپیل کی ہے۔

پولیس نے کانپور تشدد معاملہ میں 40 افراد کی تصاویر جاری کی
پولیس نے کانپور تشدد معاملہ میں 40 افراد کی تصاویر جاری کی

کانپور: کانپور تشدد معاملہ کے بعد پولیس کافی مستعد ہوگئی ہے۔ پولیس انتشار پھیلانے والے عناصر کو روکنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ڈرون کے ذریعے حساس علاقوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تشدد کے آس پاس کے علاقے میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات ہے۔ پتھراؤ اور فائرنگ کے ہنگامے میں ملوث ملزمان کی شناخت کے لیے پولیس نے 40 افراد کی تصاویر جاری کی ہیں۔ کانپور نگر کے یتیم خانہ علاقے میں 3 جون کو ہوئے تشدد کے معاملے میں پولیس نے بڑی کارروائی کی ہے۔ پولیس نے مبینہ کلیدی ملزم ظفر ہاشمی اور ان کے تین ساتھیوں سمیت 38 افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ اس کے علاوہ فساد بھڑکانے میں ملوث 1000 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

بتادیں کہ گزشتہ روز پولیس کمشنر وجے سنگھ مینا اور دیگر اعلیٰ حکام نے حساس علاقوں میں پیدل مارچ کیا تھا۔ پیدل مارچ کے دوران حکام نے لوگوں سے علاقے میں امن برقرار رکھنے کی اپیل کی تھی۔ پتھراؤ اور فائرنگ کے ہنگامے میں ملوث ملزمان کی شناخت کے لیے پولیس نے 40 افراد کی تصاویر جاری کی ہیں۔ پولیس نے عوام سے ملزمان کی گرفتاری کی اپیل کی ہے۔

مزید پڑھیں:۔ Kanpur Riots : کانپور تشدد معاملہ میں چار نوجوان گرفتار

شہر کے یتیم خانہ علاقے میں تشدد کے بعد پولیس نے سخت رویہ اپنا لیا ہے۔ پولیس تشدد کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ظفر حیات ہاشمی سمیت اب تک 38 افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔ اب پولیس نے گمراہ کن معلومات پھیلانے کے الزام میں 8 سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈرز کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ایڈیشنل ایس پی آنند کلکرنی نے بتایا کہ ماضی میں تشدد کے معاملے میں سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹ کرنے والے 8 صارفین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان آٹھ مقدمات سمیت اس معاملے میں کل 38 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل ایس پی آنند کلکرنی نے بتایا کہ اس کے علاوہ ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے جو پورے واقعہ کا جائزہ لے رہی ہے۔ واقعے سے متعلق گمراہ کن پوسٹس اور سوشل میڈیا پر پوسٹس اور پیغامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

وہیں پولیس کی اس کارروائی کے خلاف سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماوں نے تبصرہ کرتے ہوئے یکطرفہ کارروائی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانپور تشدد معاملہ پولیس ایک خاص طبقے کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور ان کو گرفتار کرکے جیل میں قید کر رہی ہے۔ معروف عالمی دین مفتی ساجد قاسمی نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آخر ہمارا ملک کس سمت جا رہا ہے۔ ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخانہ تبصرے کئے جاتے ہیں اور جب مسلمان اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے علم احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان کے احتجاج کو تشدد میں تبدیل کرنے کی سازشیں رچی جاتی ہیں اور تشدد برپا ہونے پر صرف ایک ہی فرقہ کے لوگوں، مسلمانوں کی گرفتار کیا جاتا ہے۔ کانپور میں ہوئے احتجاج کے دوارن مسلمانوں نے دکانیں بند کروائیں۔

بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے کانپور تشدد کو لے کر ٹویٹ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں تمام مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ کسی بھی مذہب کے لیے توہین آمیز زبان کا استعمال مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانپور تشدد میں پولیس کو بے قصوروں کو ہراساں نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے مذہب سے متعلق نامناسب تبصرہ کرنے پر بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو بھی اپنے لوگوں پر سختی سے شکنجہ کسنا چاہیے۔ انہیں صرف معطل کرنے اور نکالنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انہیں سخت قوانین کے تحت جیل بھیجا جائے۔ یہی نہیں حال ہی میں کانپور میں جو تشدد ہوا ہے، اس کی تہہ تک جانا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تشدد کے خلاف پولیس کارروائیوں میں بے قصور لوگوں کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں بی جے پی کی قومی ترجمان نپور شرما نے ایک ٹی وی شو کے دوران مباحثہ میں رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومینین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخانہ جملہ کہا تھا۔ اس کے بعد ملک کے مختلف مقامات پر نپور شرما کے خلاف مسلمانوں مقدمات درج کرائے تھے۔ وہیں ابھی تک نپور شرما کے خلاف کسی بھی کی کارروائی نہ ہونے سے ناراض کانپور شہر کے مسلمانوں نے گذشتہ روز نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس دوران مسلمانوں نے دوکانیں بھی بند کرانے کی کوششیں کیں۔ جس کے بعد سنگ دونوں جانب سے سنگ باری ہونے سے تشدد برپا گیا تھا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details