جموں: جموں و کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں میں رہبر کھیل اساتذہ کا مظاہرہ بدھ کو 16ویں روز بھی جاری رہا۔ کھیلوں کے اساتذہ جموں شہر کے پریس کلب کے باہر جمع ہوئے ہیں اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے ڈوگرہ چوک کی طرف بڑھنے لگے۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان معمولی جھڑپ بھی ہوئی۔ پولیس نے چند مظاہرین کو زیر حراست میں لیا۔ جھڑپ کے دوران ایک خاتون بے ہوش پائی گئی۔ اس جھڑپ کے بعد رہبر کھیل اساتذہ، حکومت اور پولیس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت ان کے مطالبات پورے نہیں کر رہی ہے، وہیں دوسری جانب پولیس ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کے صرف دو بنیادی مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ اسامیوں کو ڈی فریز کرنے کی تجویز کو منسوخ کیا جائے اور پروبیشن کی مدت سات سال سے کم کر کے پانچ سال کی جائے۔ جب تک انہیں تحریری احکامات جاری نہیں کیے جاتے احتجاج جاری رکھا جائے گا۔ Police detained several Rehbar e Khel teachers in jammu
Detained Rehbar e Khel Teachers رہبر کھیل کے کئی اساتذہ زیر حراست
جموں میں مظاہرہ کر رہے رہبر کھیل اساتذہ اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس کے خلاف رہبر کھیل اساتذہ، حکومت اور پولیس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ وہیں ڈی اے پی کے چیئرمین غلام نبی آزاد نے اس واقعہ کی مذمت کی۔ Rehbar e Khel Teachers Protest
مزید پڑھیں:۔Rehbar Khel Employees Protest in Srinagar: رہبر کھیل کے ملازمین کا سرینگر میں احتجاج
وہیں ڈیمو کریٹک آزاد پارٹی (ڈی اے پی) کے چیئرمین غلام نبی آزاد نے اس معاملہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں جموں و کشمیر رہبر کھیل کے اساتذہ پر لاٹھی چارج کرنے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ میں نے یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹھایا تھا۔ رہبر کھیل کے ان اساتذہ کے مطالبات حقیقی ہیں اور حکومت کو انہیں قبول کرنا چاہیے۔ قبل ازیں منگل کو کھیلوں کے اساتذہ نے راجوری عسکریت پسندانہ حملے کے بعد اپنے مطالبات کی حمایت میں پرامن مظاہرہ کیا۔ پیر کو اساتذہ نے ترنگا یاترا نکالی تھی۔ مظاہرین نے بتایا کہ ترنگا یاترا بی جے پی ہیڈکوارٹر تریکوٹہ نگر سے ایم اے اسٹیڈیم تک نکالی گئی تھی لیکن باہو پلازہ کے قریب پولیس نے اساتذہ کو روک دیا۔ آج ایک بار پھر پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی جب کہ ہم بھی سخت سردی میں سڑک پر آنا نہیں چاہتے لیکن حکومت کی امتیازی پالیسی کے باعث سڑک پر آنے پر مجبور ہیں۔