وادیٔ کشمیر میں گزشتہ ہفتے عام شہریوں کی ہلاکتوں بشمول چار اقلیتی افراد کے قتل کے بعد سینکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وادی کے مختلف اضلاع میں پولیس او دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے چار سو سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے ان سے حالیہ ہلاکتوں کے متعلق پوچھ تاچھ کررہی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ گرفتار کئے گئے افراد جماعت اسلامی اور تحریک حریت سے منسلک ہیں جب کہ بیشتر افراد عسکریت پسندوں کے مشتبہ معاونین ہیں۔
یاد رہے کہ شہر سرینگر میں گزشتہ ہفتے نامعلوم عسکریت پسندوں نے سات افراد کو ہلاک کیا تھا جن میں چار افراد ہندو اور سکھ آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان ہلاکتوں میں دو سرکاری اساتذہ، دیپک چند، سپندر کور، معروف دواساز ماکھن لال بندور، بانڈی پورہ کا محمد شفیع لون اور ایک غیر مقامی چھابڑی فروش وریندر پاسوان شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پولیس اور این آئی اے نے سرینگر میں ان ہلاکتوں کے سلسلے میں مختلف اسکولوں کے 40 اساتذہ کو پوچھ تاچھ کے لئے طلب کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں کی تحقیقات این آئی اے کے سپرد کی جارہی ہے، اس سلسلے میں انہوں نے چالیس اساتذہ کو تحقیقات کے لئے طلب کیا ہے۔
مرکزی سرکار نے ان ہلاکتوں کی سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے تفتیشی ایجنسیوں کے اعلی افسران کو وادی روانہ کیا ہے جہاں وہ عسکریت پسندوں کے مخالف آپریشنز کے متعلق ہدایات دیں گے اور ان ہلاکتوں کو روکنے کے لئے منصوبے طے کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اقلیتی آبادی کے افراد کی ہلاکتوں کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز و ایجنسیوں کو ہدایت دی ہے کہ عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف آپریشنز میں سرعت لائی جائے۔
مزید پڑھیں:۔اننت ناگ: این آئی اے کی کئی مقامات پر چھاپے ماری
واضح رہے کہ ان ہلاکتوں کی ذمہ داری 'دی ریزسٹنس فرنٹ' نے قبول کی تھی، جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ ہائی بڑد عسکریت پسند اور عسکریت پسندوں کے معاونین ان ہلاکتوں میں شامل ہیں جو پولیس کے نشانے پر ہیں۔